سندھ کا وفاق سے چاول کی امدادی قیمت مقرر کرنے کا مطالبہ کسانوں کی امیدیں بڑھ گئیں
صوبہ سندھ نے وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ جس طرح گندم کی امدادی قیمت مقرر کی جاتی ہے، اسی طرح چاول کی امدادی قیمت بھی طے کی جائے تاکہ کسانوں کو ان کی محنت کا مناسب معاوضہ مل سکے۔
یہ مطالبہ صوبائی وزیر زراعت سردار محمد بخش مہر نے کسانوں کے بڑھتے ہوئے خدشات کے پیش نظر کیا، جنہیں اس سال دھان کی قیمتوں میں غیر یقینی صورتحال کا سامنا ہے۔
پسِ منظر — کسانوں کے مسائل اور بڑھتی لاگت
سندھ بھر کے چاول کاشتکاروں نے کئی ماہ سے حکومت سے اپیل کی تھی کہ ان کے لیے بھی چاول کی امدادی قیمت مقرر کی جائے۔
کاشتکاروں کا کہنا ہے کہ مہنگے بیج، کھاد، ڈیزل اور مزدوروں کے نرخوں میں اضافے نے پیداوار کے اخراجات میں کئی گنا اضافہ کر دیا ہے۔
ایسے حالات میں جب مارکیٹ میں آڑھتی اپنی مرضی سے قیمتیں طے کرتے ہیں، تو کاشتکاروں کو اکثر ان کی محنت کا پورا معاوضہ نہیں ملتا۔
وزیر زراعت سردار محمد بخش مہر نے اس صورتحال کو تسلیم کرتے ہوئے کہا:
"سندھ حکومت چاول کے کاشتکاروں کی مشکلات سے بخوبی آگاہ ہے، مگر چاول کی امدادی قیمت مقرر کرنا وفاق کا اختیار ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ وفاق جلد از جلد یہ فیصلہ کرے تاکہ کسانوں کو ریلیف مل سکے۔”
وفاقی حکومت سے مطالبہ — قیمت مقرر کرنے کا باضابطہ نظام
سندھ حکومت نے وفاق سے درخواست کی ہے کہ چاول کی امدادی قیمت مقرر کرنے کے لیے ایک واضح مکینزم تیار کیا جائے۔
اس نظام میں صوبوں، کسان تنظیموں، مارکیٹ کمیٹیوں اور زرعی ماہرین کو شامل کیا جائے تاکہ قیمت کا تعین منصفانہ طریقے سے ہو۔
زرعی ماہرین کے مطابق اگر حکومت گندم کی طرح چاول کی امدادی قیمت بھی طے کر دے تو اس سے نہ صرف کسانوں کو استحکام ملے گا بلکہ زرعی معیشت کو بھی فروغ ملے گا۔
پاکستان دنیا کے بڑے چاول برآمد کرنے والے ممالک میں شامل ہے، لیکن ملکی سطح پر کسان اکثر نقصان میں رہتے ہیں۔
ہاری کارڈ کے ذریعے سبسڈی کا نیا نظام
وزیر زراعت سندھ نے اعلان کیا ہے کہ اب صوبے میں تمام زرعی سبسڈی بینظیر ہاری کارڈ کے ذریعے فراہم کی جائے گی۔
اس اقدام کا مقصد کسانوں تک براہ راست مالی مدد پہنچانا ہے تاکہ کسی درمیانی فرد کے ذریعے کٹوتی نہ ہو۔
انہوں نے کہا:
"ہم چاہتے ہیں کہ جیسے گندم کے کاشتکاروں کو سبسڈی اور امدادی قیمت کا فائدہ ملا، ویسے ہی چاول کی امدادی قیمت کے تعین کے بعد چاول کے کاشتکاروں کو بھی انصاف ملے۔”
یہ کارڈ نظام مکمل شفافیت فراہم کرے گا، اور کسانوں کو بیج، کھاد اور مشینری پر رعایت حاصل ہوگی۔
ضلعی کمیٹیوں کا قیام — شکایات کے ازالے کے لیے عملی قدم
چاول کے کاشتکاروں کی شکایات کے ازالے کے لیے سندھ حکومت نے ہر ضلع میں کمیٹیاں تشکیل دے دی ہیں۔
ان کمیٹیوں کے سربراہ اسسٹنٹ کمشنر ہوں گے، جبکہ مارکیٹ کمیٹیوں کے سیکریٹریز ان کے معاون ہوں گے۔
یہ کمیٹیاں آڑھتیوں کی جانب سے غیر قانونی کٹوتیوں یا ناجائز کم قیمت پر خریداری کی شکایات پر فوری کارروائی کریں گی۔
ہر ہفتے ان کمیٹیوں کی رپورٹ سیکریٹری زراعت کو بھیجی جائے گی تاکہ حکومت کو زمینی حقائق کا علم رہے۔
کاشتکاروں نے اس اقدام کو سراہا ہے اور امید ظاہر کی ہے کہ اگر چاول کی امدادی قیمت مقرر کر دی گئی تو ان کی معاشی حالت بہتر ہو جائے گی۔
چاول کی فصل اور معیشت پر اس کا اثر
پاکستان میں چاول کی فصل برآمدات کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔
ماہرین کے مطابق اگر حکومت وقت پر چاول کی امدادی قیمت طے کرے تو کسانوں کو بہتر منافع ملنے کے ساتھ ساتھ برآمدات میں بھی اضافہ ہو گا۔
زرعی اعداد و شمار کے مطابق سندھ ملک میں دھان کی پیداوار میں نمایاں حصہ رکھتا ہے۔
تاہم، مارکیٹ کے عدم استحکام اور آڑھتیوں کی اجارہ داری کے باعث کاشتکار اپنی لاگت بھی پوری نہیں کر پاتے۔
یہی وجہ ہے کہ چاول کی امدادی قیمت کا تعین اب وقت کی اہم ضرورت بن چکا ہے۔
کسانوں کا مؤقف — “ہم صرف انصاف چاہتے ہیں”
چاول کے کاشتکاروں نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ وہ حکومت سے کسی غیر معمولی رعایت کا مطالبہ نہیں کر رہے، صرف اپنی محنت کا جائز معاوضہ چاہتے ہیں۔
ایک کسان نے بتایا:
"ہم سارا سال محنت کرتے ہیں، مگر جب فصل تیار ہوتی ہے تو مارکیٹ میں قیمتیں گر جاتی ہیں۔ اگر حکومت چاول کی امدادی قیمت مقرر کر دے تو ہمیں سکون ملے گا۔”
کاشتکاروں کا کہنا ہے کہ اگر یہ قیمت مقرر نہ کی گئی تو ہزاروں کسان آئندہ سال دھان کی کاشت چھوڑ دیں گے، جس سے ملک کی برآمدی آمدن پر بھی منفی اثر پڑے گا۔
صوبائی اور وفاقی سطح پر پالیسی کی ضرورت
وزیر زراعت سندھ نے کہا ہے کہ وفاقی حکومت کو چاہیے کہ وہ صوبوں اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ بیٹھ کر زراعت کے لیے ایک طویل المدتی پالیسی بنائے۔
انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کے فیصلوں کی روشنی میں صوبے خود کسی فصل کی قیمت طے نہیں کر سکتے، اس لیے وفاقی سطح پر اتفاقِ رائے ضروری ہے۔
اگر وفاق بروقت چاول کی امدادی قیمت کا اعلان کرے تو اس کے اثرات نہ صرف سندھ بلکہ پنجاب اور بلوچستان کے کسانوں پر بھی مثبت ہوں گے۔
ماہرین کی رائے — ایک دیرینہ مطالبہ
زرعی ماہرین کہتے ہیں کہ یہ مطالبہ نیا نہیں۔
کئی برسوں سے کسان تنظیمیں حکومت سے کہہ رہی ہیں کہ چاول کی امدادی قیمت کا تعین بھی گندم کی طرح کیا جائے۔
اس سے مارکیٹ میں استحکام آئے گا، اور کسان منصوبہ بندی کے ساتھ اگلی فصل کے لیے سرمایہ لگا سکیں گے۔
اگر حکومت نے فوری اقدامات نہ کیے تو کسانوں کا اعتماد کمزور ہو جائے گا اور زراعت کا شعبہ مزید بحران کا شکار ہو سکتا ہے۔
چاول کی قیمت میں اضافہ، سیلہ اور کچی کائنات مزید مہنگے
سندھ حکومت کا یہ اقدام کسانوں کے لیے امید کی نئی کرن بن گیا ہے۔
اب سب کی نظریں وفاق پر لگی ہیں کہ وہ کب چاول کی امدادی قیمت مقرر کرنے کا اعلان کرتا ہے۔
اگر یہ فیصلہ جلد ہو گیا تو یہ پاکستان کی زرعی معیشت کے لیے ایک مثبت پیش رفت ہوگی۔










Comments 1