سوات میں خوف و ہراس — اے این پی رہنما ممتاز خان حملے سے محفوظ رہے
خیبر پختونخوا کے ضلع سوات میں امن دشمنوں نے ایک بار پھر دہشت پھیلانے کی کوشش کی۔ سوات بم دھماکا مٹہ کے علاقے شکردرہ میں اس وقت پیش آیا جب عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے رہنما ممتاز علی خان ایک جنازے میں شرکت کے لیے جا رہے تھے۔

دھماکا ان کی گاڑی سے صرف چند فٹ کے فاصلے پر ہوا جس سے گاڑی کو نقصان پہنچا، تاہم خوش قسمتی سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔
پولیس کی ابتدائی رپورٹ
پولیس کے مطابق یہ سوات بم دھماکا ایک ریموٹ کنٹرول بارودی مواد کے ذریعے کیا گیا جو سڑک کے کنارے نصب تھا۔
دھماکے کی شدت سے قریبی گھروں کے شیشے ٹوٹ گئے اور علاقے میں خوف و ہراس پھیل گیا۔
پولیس اور بم ڈسپوزل یونٹ نے فوری طور پر علاقے کو گھیرے میں لے لیا اور شواہد اکٹھے کرنا شروع کر دیے۔
تحقیقات کے مطابق، دھماکے میں 3 سے 4 کلو بارودی مواد استعمال کیا گیا۔
ممتاز خان محفوظ مگر نشانے پر
اے این پی کے رہنما ممتاز علی خان، جو پی کے 9 کے سابق امیدوار ہیں، خوش قسمتی سے محفوظ رہے۔
واقعے کے وقت وہ اپنے قافلے کے ساتھ ایک مقامی جنازے میں شرکت کے لیے جا رہے تھے کہ گھر سے تقریباً 300 فٹ کے فاصلے پر دھماکا ہو گیا۔
عینی شاہدین کے مطابق:
“دھماکے کے بعد زمین ہل گئی، شور بلند ہوا، اور ہم سمجھے کہ بڑا حملہ ہوا ہے۔”
یہ دوسرا موقع ہے جب سوات بم دھماکا میں کسی سیاسی شخصیت کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی۔
سوات میں امن و امان کی صورتحال
گزشتہ چند ماہ میں سوات اور مٹہ کے علاقوں میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔
سیکیورٹی ادارے بارہا خبردار کر چکے ہیں کہ بعض کالعدم تنظیمیں دوبارہ سرگرم ہو رہی ہیں۔
حکومتی ذرائع کے مطابق، حالیہ سوات بم دھماکا اسی سلسلے کی کڑی معلوم ہوتا ہے۔
پولیس اور خفیہ اداروں نے علاقے میں سرچ آپریشن شروع کر دیا ہے، اور ممکنہ سہولت کاروں کو حراست میں لینے کے لیے چھاپے جاری ہیں۔
اے این پی کا ردعمل
اے این پی کے مرکزی ترجمان نے دھماکے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ:
“یہ حملہ امن دشمن عناصر کی ناکام کوشش ہے۔ ممتاز خان عوام کی خدمت کے لیے پرعزم ہیں، دھمکیاں اور حملے انہیں خوفزدہ نہیں کر سکتے۔”
پارٹی قیادت نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ واقعے کی شفاف تحقیقات کر کے ذمہ داروں کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے۔
امن جرگہ اور حکومت کا موقف
واقعہ ایسے وقت میں پیش آیا جب صوبائی حکومت کی جانب سے آج ہی خیبر پختونخوا میں قیام امن کے لیے امن جرگہ منعقد کیا جا رہا تھا۔
وزیراعلیٰ ہاؤس کے ذرائع کے مطابق، اس جرگے میں علمائے کرام، سیاسی جماعتوں کے رہنما اور قبائلی مشران شریک تھے۔
حکومت نے یقین دلایا ہے کہ سوات بم دھماکا میں ملوث عناصر کو جلد گرفتار کیا جائے گا اور امن دشمنوں کے خلاف بھرپور کارروائی کی جائے گی۔
عوام میں خوف کی فضا
شکردرہ اور مٹہ کے علاقوں میں شہری خوفزدہ ہیں۔
دھماکے کے بعد والدین نے بچوں کو اسکول بھیجنے سے گریز کیا جبکہ دکانیں بھی جزوی طور پر بند رہیں۔
مقامی شخص حبیب اللہ نے بتایا:
“ہم سوات میں دوبارہ دہشتگردی نہیں چاہتے۔ پچھلے چند سالوں میں ہم نے امن دیکھا، اب پھر خوف لوٹ آیا ہے۔”
ماہرین کی رائے
سیکیورٹی تجزیہ کاروں کے مطابق، سوات بم دھماکا سے ظاہر ہوتا ہے کہ دہشت گرد تنظیمیں دوبارہ منظم ہونے کی کوشش کر رہی ہیں۔
یہ واقعات سیکیورٹی فورسز کے لیے ایک چیلنج ہیں، خصوصاً ایسے وقت میں جب صوبے میں عام انتخابات کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔
اسلام آباد جوڈیشل کمپلیکس خودکش حملہ: حملہ آور 200 روپے میں پہنچا، رائیڈر گرفتار
سوات بم دھماکا نے ایک بار پھر یاد دلایا ہے کہ امن کی بحالی ایک مسلسل عمل ہے۔
اے این پی رہنما ممتاز خان خوش قسمتی سے محفوظ رہے، لیکن یہ واقعہ واضح کرتا ہے کہ دہشت گردی کا خطرہ اب بھی موجود ہے۔
امن قائم رکھنے کے لیے حکومت، عوام اور سیکیورٹی اداروں کو متحد ہو کر کام کرنا ہوگا، ورنہ سوات دوبارہ ایک غیر یقینی دور میں داخل ہو سکتا ہے۔









