27ویں آئینی ترمیم پر چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کا فل کورٹ اجلاس طلب ،اجلاس میں آئینی ترمیم کے تمام پہلوؤں پر تفصیلی غور کیا جائے گا
اسلام آباد (رئیس الاخبار) :— چیف جسٹس آف پاکستان یحییٰ آفریدی نے 27ویں آئینی ترمیم پر اہم پیش رفت کرتے ہوئے کل فل کورٹ اجلاس طلب کرلیا ہے۔ اجلاس نمازِ جمعہ سے قبل منعقد ہوگا، جس میں آئینی ترمیم کے تمام پہلوؤں پر تفصیلی غور کیا جائے گا۔
ذرائع کے مطابق، یہ اجلاس سپریم کورٹ کے تین سینئر ججز — جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس اطہر من اللہ، اور جسٹس صلاح الدین پنہور — کے جانب سے چیف جسٹس کو لکھے گئے خطوط کے بعد بلایا گیا ہے۔
چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کا فل کورٹ اجلاس طلب جس میں ججز کی مشاورت سے یہ طے کیا جائے گا کہ ترمیم عدلیہ کے آئینی اختیارات پر کس حد تک اثر انداز ہوسکتی ہے۔
پارلیمنٹ سے 27ویں آئینی ترمیم کی منظوری
گزشتہ روز قومی اسمبلی نے 27ویں آئینی ترمیم بھاری اکثریت سے منظور کی تھی۔
ترمیم کے حق میں 234 ووٹ جبکہ مخالفت میں صرف 4 ووٹ آئے۔
اپوزیشن جماعتوں نے اسمبلی اجلاس کی کارروائی کا بائیکاٹ کیا۔
آج چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی کی زیرِ صدارت ایوانِ بالا کے اجلاس میں ترمیم کی اضافی شقیں بھی منظور کرلی گئیں۔
چیئرمین نے اعلان کیا کہ ووٹنگ مکمل ہوچکی ہے —
64 ووٹ ترمیم کے حق میں اور 4 ووٹ مخالفت میں آئے،
یوں 27ویں آئینی ترمیم بل دو تہائی اکثریت سے منظور کرلیا گیا۔
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے 4 سینیٹرز نے مخالفت میں ووٹ دیا جبکہ سینیٹر سیف اللہ ابڑو اور سینیٹر احمد خان نے ترمیم کے حق میں ووٹ دیا۔
ججز کے خطوط اور عدلیہ کے خدشات
سپریم کورٹ کے جج جسٹس صلاح الدین پنہور نے اپنے خط میں چیف جسٹس کو لکھا کہ وہ احتجاج نہیں بلکہ اپنے آئینی فرض کے تحت یہ خط لکھ رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کا فل کورٹ اجلاس طلب کر کے آئینی ترمیم کا شق وار جائزہ لیا جائے، کیونکہ یہ اختیارات کے توازن کو متاثر کر سکتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ:

“آئین تقاضا کرتا ہے کہ سپریم کورٹ اس کا تحفظ کرے۔
تاریخ ہماری آسانی نہیں بلکہ ہماری فیصلہ سازی کی ہمت کو یاد رکھے گی۔
عوامی اعتماد کو بچانے کے لیے فوری فل کورٹ اجلاس ضروری ہے۔”
جسٹس اطہر من اللہ نے اپنے خط میں عدلیہ کو لاحق خطرات پر غور کے لیے قومی عدالتی کانفرنس بلانے کی درخواست کی تھی۔
انہوں نے افسوس ظاہر کیا کہ بعض اوقات سپریم کورٹ کو غیر منتخب اشرافیہ کے ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کیا گیا۔
جبکہ جسٹس منصور علی شاہ نے لکھا کہ اگر عدلیہ متحد نہ ہوئی تو آزادی اور فیصلے متاثر ہوں گے،
انہوں نے کہا کہ تاریخ خاموش رہنے والوں کو نہیں بلکہ آئین کی سربلندی کے لیے کھڑے ہونے والوں کو یاد رکھتی ہے۔










Comments 1