اسلام آباد گدھے کا گوشت: فوڈ اتھارٹی کی بڑی کارروائی، 40 زندہ گدھے برآمد
اسلام آباد، جو کہ پاکستان کا دارالحکومت ہے اور جہاں شہریوں کو صاف ستھرا اور معیاری خوراک فراہم کرنے کا وعدہ کیا جاتا ہے، وہاں ایک ایسا انکشاف ہوا ہے جس نے نہ صرف شہریوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے بلکہ فوڈ سیفٹی کے پورے نظام پر بھی کئی سوالیہ نشان کھڑے کر دیے ہیں۔ اسلام آباد فوڈ اتھارٹی کی جانب سے کی گئی ایک خفیہ کارروائی کے دوران ایک فارم ہاؤس سے 40 زندہ گدھے اور 1000 کلو سے زائد کٹا ہوا گوشت برآمد ہوا، جس کے بارے میں شبہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ یہ گدھے کا گوشت ہے۔
پسِ منظر: اطلاع سے کارروائی تک
ڈائریکٹر فوڈ اتھارٹی اسلام آباد عرفان میمن کے مطابق، ان کی ٹیم کو ایک خفیہ اطلاع موصول ہوئی تھی کہ اسلام آباد کے نواحی علاقے میں ایک فارم ہاؤس پر غیر قانونی طور پر جانور ذبح کیے جا رہے ہیں۔ ابتدائی طور پر یہ صرف ایک شک تھا، لیکن چونکہ فوڈ اتھارٹی شہریوں کی صحت اور سلامتی کے لیے انتہائی حساس ہے، اس لیے ایک خفیہ نگرانی شروع کی گئی۔
ٹیم نے تقریباً ایک ہفتہ اس فارم ہاؤس کی مسلسل مانیٹرنگ کی، جس دوران مشتبہ سرگرمیوں کے واضح شواہد حاصل ہوئے۔ اس کے بعد ایک باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت ٹیم نے پولیس کے ہمراہ چھاپہ مارا اور انتہائی تشویشناک صورت حال کا سامنا کیا۔
چھاپے کی تفصیلات
چھاپے کے دوران، ٹیم نے جو کچھ دیکھا وہ ناقابل یقین تھا۔ فارم ہاؤس کے احاطے سے 40 زندہ گدھے برآمد ہوئے جو مختلف کمروں میں بند تھے اور بظاہر اچھے حال میں نہیں تھے۔ ان کے ساتھ ساتھ تقریباً 1000 کلوگرام گوشت بھی برآمد کیا گیا، جو مختلف بوریوں میں پیک کیا گیا تھا اور ممکنہ طور پر شہر کے مختلف علاقوں میں سپلائی کیا جانا تھا۔
مزید یہ کہ، موقع پر موجود دو افراد—ایک غیر ملکی قصائی اور مقامی چوکیدار—کو گرفتار کر لیا گیا۔ ان سے پوچھ گچھ جاری ہے اور ان کی نشاندہی پر مزید چھاپے بھی متوقع ہیں۔
بین الاقوامی نیٹ ورک کا خدشہ
اس سارے معاملے میں سب سے تشویشناک پہلو یہ ہے کہ اس کارروائی میں غیر ملکی عناصر بھی شامل ہو سکتے ہیں۔ ابتدائی تحقیقات سے اشارہ ملتا ہے کہ یہ گوشت صرف مقامی سطح پر ہی نہیں بلکہ شہر سے باہر اور ممکنہ طور پر بین الاقوامی سطح پر بھی بھیجا جا سکتا تھا۔
حکام کو خدشہ ہے کہ یہ پورا نیٹ ورک ایک مربوط غیر قانونی گروہ کے ذریعے چلایا جا رہا ہے جو نہ صرف گوشت کی غیر قانونی تجارت میں ملوث ہے بلکہ فوڈ چین سسٹم میں غیر معیاری اور ممنوعہ اشیاء کو داخل کر رہا ہے۔
ہوٹلوں اور ریسٹورینٹس پر نظر
ڈائریکٹر عرفان میمن نے بتایا کہ واقعے کے بعد اسلام آباد میں موجود تمام بڑے اور چھوٹے ہوٹلوں، ریسٹورینٹس، اور قصائی دکانوں کی سرویلنس اور انسپیکشن کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ کچھ جگہوں پر رات کے وقت سرپرائز وزٹ کیے جا رہے ہیں تاکہ معلوم ہو سکے کہ یہ گوشت کہیں استعمال تو نہیں ہو رہا۔
اس حوالے سے مختلف سیمپلنگ کا عمل جاری ہے اور مشکوک گوشت کو لیبارٹری بھیجا جا رہا ہے تاکہ اس کی تصدیق ہو سکے۔
شہری صحت کو لاحق خطرات
طبی ماہرین کے مطابق، گدھے کا گوشت انسانی صحت کے لیے انتہائی مضر ہو سکتا ہے۔ اس گوشت میں مختلف اقسام کے بیکٹیریا اور وائرس پائے جا سکتے ہیں جو کہ پیٹ کے امراض، ہیپاٹائٹس، اور حتیٰ کہ خطرناک انفیکشنز کا باعث بن سکتے ہیں۔ اگر یہ گوشت بغیر کسی طبی جانچ کے فوڈ چین میں شامل ہو جائے تو اس کے نقصانات پورے معاشرے پر مرتب ہو سکتے ہیں۔
قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارروائی
اسلام آباد پولیس، فوڈ اتھارٹی اور دیگر انٹیلیجنس ادارے اب اس کیس کو انسدادِ دہشتگردی قوانین، حیوانی حقوق، اور صارفین کے حقوق کے تحت دیکھ رہے ہیں۔ اب تک کی معلومات کے مطابق، متعدد مشتبہ افراد کی فہرست تیار کر لی گئی ہے اور ان کے خلاف کارروائی کے لیے وارنٹ بھی حاصل کیے جا رہے ہیں۔
عوام سے اپیل
فوڈ اتھارٹی نے شہریوں سے پرزور اپیل کی ہے کہ وہ اپنے اطراف کی دکانوں، ہوٹلوں اور گوشت فروشوں پر نظر رکھیں۔ اگر انہیں کسی دکان پر مشکوک گوشت نظر آئے یا ذبح کا عمل غیر روایتی محسوس ہو، تو فوری طور پر فوڈ اتھارٹی کی ہیلپ لائن پر اطلاع دیں۔
سفارشات
یہ واقعہ اس بات کا ناقابل تردید ثبوت ہے کہ ملک میں فوڈ سیفٹی کے نظام کو مزید مؤثر بنانے کی اشد ضرورت ہے۔ حکومت اور متعلقہ اداروں کو درج ذیل اقدامات فوری طور پر کرنے چاہئیں:
- تمام بڑے شہروں میں فوڈ انٹیلیجنس نیٹ ورک قائم کیے جائیں۔
- گوشت کی سپلائی چین کو ڈیجیٹل ٹریکنگ سسٹم کے ذریعے مانیٹر کیا جائے۔
- غیر قانونی ذبح اور فروخت پر سزا کو مزید سخت کیا جائے۔
- ہوٹل اور ریسٹورنٹس مالکان کو گوشت خریداری کے معتبر ذرائع کی لازمی رپورٹنگ کا پابند بنایا جائے۔
- عوامی آگاہی مہم چلائی جائے تاکہ لوگ مشتبہ گوشت کی پہچان کر سکیں۔
اسلام آباد کا یہ واقعہ ایک وارننگ ہے، نہ صرف مقامی انتظامیہ کے لیے بلکہ پورے ملک کے فوڈ سسٹم کے لیے۔ صحت مند معاشرے کی بنیاد محفوظ اور معیاری خوراک پر ہوتی ہے۔ اگر اب بھی ہم نے اس مسئلے کو سنجیدگی سے نہ لیا تو آئندہ اس سے بھی بڑے خطرات سامنے آ سکتے ہیں۔