فیلڈ مارشل عاصم منیر کے صدر بننے کی باتیں بے بنیاد، ڈی جی آئی ایس پی آر کا واضح موقف
پاکستان کے فوجی امور اور قومی سلامتی کے حوالے سے اہم شخصیت، ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے حال ہی میں ایک برطانوی جریدے ‘دی اکنامسٹ’ کو دیے گئے انٹرویو میں فیلڈ مارشل عاصم منیر کے پاکستان کے صدر بننے کی افواہوں کی سختی سے تردید کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ تمام باتیں بے بنیاد اور بے وقوفانہ قیاس آرائیاں ہیں، جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ ان کا یہ موقف پاکستان کی فوج کی غیر سیاسی اور جمہوری عمل میں مکمل وفاداری کی عکاسی کرتا ہے۔ اس مضمون میں ہم اس معاملے کی مکمل تفصیل کے ساتھ ساتھ دیگر اہم سیاسی اور فوجی پہلوؤں پر بھی روشنی ڈالیں گے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر کا موقف: افواہیں بے بنیاد
لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے واضح کیا کہ فیلڈ مارشل عاصم منیر کے پاکستان کے صدر بننے کے حوالے سے خبریں محض افواہیں ہیں جن کی کوئی حقیقت نہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے ادارے جمہوری عمل اور آئینی حدود کی پاسداری کرتے ہیں۔ فوج کا مقصد ملک کی سلامتی اور دفاع ہے، نہ کہ سیاسی اقتدار کا حصول۔ جنرل احمد شریف کا یہ بیان اس وقت سامنے آیا ہے جب پاکستان کی سیاسی صورتحال کافی حساس اور متحرک ہے، اور بعض حلقے سیاست میں فوج کی مداخلت کے حوالے سے قیاس آرائیاں کر رہے ہیں۔
بھارتی فوجی کارروائی پر پاکستان کا ردعمل
ڈی جی آئی ایس پی آر نے بھارت کی جانب سے ممکنہ فوجی کارروائی کے حوالے سے بھی اپنی رائے دی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اس بار بھارت کے مشرقی محاذ سے آغاز کرے گا، اور بھارتی سرزمین کے اندر گہرائی میں حملہ کرے گا۔ ان کے مطابق بھارت کو یہ سمجھنا ہوگا کہ وہ ہر جگہ سے نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔ جنرل احمد شریف کے بیان سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان اپنی دفاعی اور جارحانہ حکمت عملی کو مضبوط کر رہا ہے تاکہ کسی بھی غیر متوقع فوجی حملے کا مؤثر جواب دیا جا سکے۔
وزیر داخلہ محسن نقوی کا موقف
پاکستان کے وزیر داخلہ محسن نقوی نے بھی اس موضوع پر اہم بیان دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ صدر، وزیراعظم، اور فیلڈ مارشل عاصم منیر کو نشانہ بنانے والی مہم کے پیچھے کون ہے، یہ جاننا ضروری ہے۔ محسن نقوی نے واضح کیا کہ نہ تو صدر کے استعفے کی کوئی بات ہوئی ہے اور نہ ہی آرمی چیف صدارت کا منصب سنبھالنے کے خواہشمند ہیں۔ ان کے اس بیان کا مقصد سیاسی قیاس آرائیوں کو روکنا اور ملکی استحکام کو برقرار رکھنا تھا۔
پیپلز پارٹی کا ردعمل: نیئر بخاری کی وضاحت
دوسری طرف، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے سیکرٹری جنرل نیئر بخاری نے بھی صدر آصف زرداری کے خلاف گردش کرنے والی قیاس آرائیوں کی سختی سے تردید کی۔ انہوں نے کہا کہ صدر زرداری ملک کے منتخب صدر ہیں اور ان کے خلاف کی جانے والی تمام باتیں بے بنیاد ہیں۔ نیئر بخاری نے کہا کہ ایسے لوگوں کو آئین اور قانون کی سمجھ ہی نہیں جو بغیر کسی ثبوت کے اس طرح کی قیاس آرائیاں کرتے ہیں۔ ان کا موقف جمہوریت اور آئینی عمل کی حمایت میں مضبوطی کا مظہر ہے۔

سیاسی ماحول میں فوج کا کردار اور جمہوریت کی حفاظت
پاکستان کی تاریخ میں فوج کا سیاسی کردار ہمیشہ ایک حساس موضوع رہا ہے۔ تاہم موجودہ دور میں فوجی قیادت کی جانب سے جمہوری اداروں کا احترام اور ان کے دائرہ کار کی پاسداری پر زور دیا جا رہا ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کے حالیہ بیانات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ فوج اب سیاسی معاملات میں مداخلت کے بجائے ملک کی دفاعی صلاحیتوں اور قومی سلامتی پر توجہ مرکوز کرنا چاہتی ہے۔ یہ رویہ ملک میں سیاسی استحکام اور جمہوری عمل کے لیے خوش آئند ہے۔
بھارتی فوجی چیلنجز اور پاکستان کی حکمت عملی
بھارت کے ساتھ سرحدی تنازعات اور فوجی محاذ پر کشیدگی نے ہمیشہ پاکستان کے دفاعی اداروں کو چوکس رکھا ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کے بیان سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان اپنی دفاعی حکمت عملی کو مضبوط اور متحرک رکھے ہوئے ہے تاکہ بھارت کی کسی بھی فوجی حرکت کا بھرپور جواب دیا جا سکے۔ ان کا کہنا ہے کہ بھارت کو یہ سمجھنا ہوگا کہ وہ بھی محفوظ نہیں ہے اور پاکستان کسی بھی جارحیت کا جواب سختی سے دے گا۔
افواہوں کا خاتمہ اور عوامی اعتماد کی بحالی
پاکستان میں فوج اور سیاسی قیادت کے درمیان تعاون کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے افواہوں اور بے بنیاد قیاس آرائیوں کا فوری خاتمہ ضروری ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر اور دیگر حکومتی رہنماؤں کے بیانات کا مقصد عوام کو یقین دلانا ہے کہ ملک کی سلامتی اور سیاسی استحکام کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بیانات سیاسی مخالفین کو خبردار کرتے ہیں کہ ملک میں انتشار پھیلانے کی کوششوں کو کامیاب نہیں ہونے دیا جائے گا۔
نتائج اور آئندہ کے امکانات
ڈی جی آئی ایس پی آر کے بیانات نے پاکستان کی فوج کی غیر سیاسی اور آئینی ذمہ داریوں کی تصدیق کی ہے۔ اس کے علاوہ، بھارت کے ساتھ موجودہ کشیدگی میں پاکستان کی دفاعی حکمت عملی کو واضح کیا گیا ہے۔ سیاسی قیادت اور فوج کے مابین بہتر تعلقات ملک کی جمہوریت کے لیے اہم سنگ میل ہیں۔ امید کی جاتی ہے کہ آئندہ بھی یہ سلسلہ جاری رہے گا اور ملک اندرونی و بیرونی چیلنجز کا مؤثر جواب دے گا۔
Comments 1