ایف بی آر نے جعلی اور فلائنگ انوائسز کے خلاف بڑا قدم اٹھا لیا: گرفتاری کے لیے نیا طریقہ کار متعارف
فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے ٹیکس نظام میں شفافیت کو فروغ دینے اور ٹیکس چوری کو روکنے کے لیے ایک اہم قدم اٹھاتے ہوئے جعلی اور فلائنگ انوائسز میں ملوث رجسٹرڈ افراد و تاجروں کے خلاف گرفتاری کا نیا اور باقاعدہ طریقہ کار متعارف کروا دیا ہے۔
ایف بی آر کے مطابق یہ اقدام اُن تاجروں کے خلاف کیا جا رہا ہے جو سیلز ٹیکس میں رجسٹرڈ ہونے کے باوجود جعلی یا مشکوک انوائسز کے ذریعے قومی خزانے کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ اس نئے نظام کے تحت ایسے افراد کی رجسٹریشن نہ صرف معطل کی جائے گی بلکہ بلیک لسٹ بھی کیا جائے گا۔ تاہم، بلیک لسٹنگ سے قبل انہیں صفائی کا موقع فراہم کرنے کے لیے 7 روز کے اندر شوکاز نوٹس جاری کیا جائے گا۔
گرفتاری سے قبل مشاورت اور منظوری لازمی
ایف بی آر نے واضح کیا ہے کہ کسی بھی تاجر یا فرد کو گرفتار کرنے سے قبل نہایت محتاط اور جامع مشاورتی عمل اپنایا جائے گا۔ اس عمل کے تحت:
کم از کم دو نمائندہ تاجروں سے مشاورت کی جائے گی تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ کوئی بے گناہ شخص کارروائی کی زد میں نہ آئے۔
اس کے بعد ایف بی آر کے ممبر ان لینڈ ریونیو آپریشنز سے باقاعدہ تحریری اجازت لینا لازمی قرار دیا گیا ہے۔
اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ایف بی آر غیر ضروری گرفتاریوں یا کاروباری برادری پر دباؤ ڈالنے کے الزامات سے بچنے کے لیے شفاف اور مشاورت پر مبنی حکمت عملی اپنا رہا ہے۔
اندرونی سہولت کار اور سرکاری اہلکار بھی زد میں آئیں گے
ایف بی آر کا کہنا ہے کہ یہ نیا طریقہ کار صرف تاجر برادری تک محدود نہیں ہوگا، بلکہ ان افسران، اہلکاروں اور اندرونی سہولت کاروں کو بھی شامل کیا جائے گا جو اس ٹیکس فراڈ میں معاونت کرتے رہے ہیں۔ اس کے لیے مشکوک لین دین، خرید و فروخت کی ٹرانزیکشنز، جمع کرائے گئے ٹیکس گوشوارے اور دیگر متعلقہ ریکارڈز کا ڈیجیٹل اور فزیکل تجزیہ کیا جائے گا۔
فراڈ کی نشاندہی اور تحقیقات کا طریقہ کار
جعلی انوائسز کی ابتدائی نشاندہی کے لیے ایف بی آر نے "اسیسمنٹ پراسسنگ سیل” کو ذمہ داری سونپی ہے۔ یہ سیل ان مشکوک انوائسز کی نشاندہی کرے گا جن پر شک ہو کہ وہ محض کاغذی لین دین کے لیے استعمال ہو رہی ہیں۔ اس کے بعد:
دو سینئر افسران متعلقہ ڈیٹا کا تجزیہ کریں گے۔
اگر یہ ثابت ہو جائے کہ کسی فرد یا ادارے نے ان جعلی انوائسز کے ذریعے مالی فائدہ حاصل کیا ہے تو اس کے خلاف باقاعدہ ایف آئی آر درج کی جائے گی۔
یہ طریقہ کار ان تمام افراد کو قانون کے کٹہرے میں لانے میں مددگار ہوگا جو جعلی دستاویزات کے ذریعے بڑے پیمانے پر ٹیکس چوری میں ملوث ہیں۔
انکوائری کا دائرہ کار اور گرفتاری کی حدود
ایف بی آر کے نوٹیفکیشن کے مطابق، کسی بھی انکوائری کا آغاز صرف کمشنر ان لینڈ ریونیو کی منظوری سے کیا جا سکے گا۔ تاہم، یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ انکوائری مکمل ہونے کے بعد ازخود گرفتاری کی اجازت نہیں ہوگی۔ اس کے لیے مذکورہ بالا منظوری اور مشاورت کے مراحل لازمی ہوں گے۔
آن لائن کاروبار اب ایف بی آر کے شکنجے میں: ہر آرڈر پر 18 فیصد سیلز ٹیکس لاگو

نتیجہ: قانون کی بالادستی اور ٹیکس نظام میں شفافیت کی طرف اہم قدم
ایف بی آر کی جانب سے متعارف کردہ یہ طریقہ کار اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ ادارہ اب ٹیکس چوری کے خلاف سخت اقدامات اٹھانے کے لیے نہ صرف پرعزم ہے بلکہ وہ قانونی، شفاف اور مشاورتی طریقہ اختیار کر رہا ہے تاکہ کاروباری برادری کا اعتماد بھی بحال رہے۔
یہ اقدام ان تمام عناصر کے خلاف ایک ٹھوس پیغام ہے جو ٹیکس نیٹ میں رہ کر بھی قومی خزانے کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ ساتھ ہی یہ بھی واضح ہے کہ اب صرف تاجروں پر ہی نہیں بلکہ ان سرکاری اہلکاروں پر بھی قانون کی گرفت مضبوط ہو گی جو اندرونی طور پر سہولت کار بنے ہوئے ہیں۔
اگر ایف بی آر اس نظام کو مؤثر اور غیر جانب دار طریقے سے نافذ کرے تو یہ پاکستان کے ٹیکس نظام میں تاریخی اصلاحات کی بنیاد بن سکتا ہے۔


