ایران نے پاکستان سے چاول اور 60 فیصد گوشت خریدنے کی یقین دہانی کرائی
پاکستان اور ایران میں زرعی تجارت کا نیا دور: چاول، گوشت، آم اور مکئی کی بڑی برآمدات کا عندیہ
خطے کی دو اہم ہمسایہ ممالک پاکستان اور ایران کے درمیان زرعی تعاون اور تجارتی تعلقات میں ایک نئے تاریخی باب کا آغاز ہو چکا ہے۔ حال ہی میں ایران میں ہونے والے اعلیٰ سطح وزارتی اجلاس میں پاکستان کے وفاقی وزیر برائے قومی غذائی تحفظ و تحقیق رانا تنویر حسین نے پاکستانی وفد کی قیادت کی۔ اس اجلاس کے دوران دونوں ممالک نے زرعی شعبے میں باہمی تعاون بڑھانے، تجارتی رکاوٹیں دور کرنے، اور آزاد تجارتی معاہدے (FTA) کی سمت پیش رفت پر اتفاق کیا۔
اس اجلاس کے سب سے اہم نکات میں شامل ہیں:
- ایران کی جانب سے پاکستانی چاول کی بڑے پیمانے پر خریداری کی یقین دہانی
- ایرانی گوشت کی 60 فیصد ضروریات پاکستان سے پوری کرنے کا فیصلہ
- پاکستانی آم اور مکئی کی برآمدات میں حائل رکاوٹوں کا خاتمہ
- زرعی تحقیقاتی اداروں کے مابین باہمی اشتراک
- کسٹم کلیئرنس میں تیزی اور تجارتی سہولتوں میں بہتری
ایک مشترکہ کمیٹی کا قیام جو ہر 6 ماہ بعد اجلاس کر کے پیش رفت کا جائزہ لے گی
یہ تمام اقدامات نہ صرف پاکستان کی زرعی برآمدات کو فروغ دینے میں مددگار ثابت ہوں گے بلکہ دونوں ممالک کے درمیان تجارتی توازن کو بھی بہتر بنانے کا ذریعہ بنیں گے۔
ایرانی مارکیٹ میں پاکستانی چاول کی مانگ میں اضافہ
وزیرِ غذائی تحفظ رانا تنویر حسین نے اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ایران نے اپنی چاول کی درآمدات کا بڑا حصہ پاکستان سے خریدنے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔ پاکستان کا باسمتی چاول دنیا بھر میں اپنی خوشبو، معیار اور ذائقے کی وجہ سے مشہور ہے، اور ایران کی مارکیٹ میں اس کی بڑی مانگ موجود ہے۔
ماضی میں بعض تجارتی رکاوٹوں کے باعث ایران کو دیگر ممالک سے چاول منگوانا پڑتا تھا، لیکن اب باہمی اتفاق سے یہ رکاوٹیں دور کر دی گئی ہیں۔ اس پیش رفت سے پاکستانی کسانوں، چاول ایکسپورٹرز اور مل مالکان کو براہ راست فائدہ ہوگا، اور زرِ مبادلہ کے ذخائر میں بھی اضافہ ممکن ہوگا۔
ایران، اپنی 60 فیصد گوشت کی ضرورت پاکستان سے پوری کرے گا
سب سے بڑی خبر جس نے ملکی معیشت اور لائیو اسٹاک انڈسٹری میں نئی روح پھونکی ہے، وہ یہ ہے کہ ایران نے اپنی 60 فیصد گوشت کی خریداری پاکستان سے کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہے۔ اس فیصلے کے تحت:
- بکرا، گائے، بھیڑ اور دیگر جانوروں کے گوشت کی برآمدات میں اضافہ ہوگا
- لائیو اسٹاک فارمرز کو براہ راست فائدہ ہوگا
- گوشت کی پراسیسنگ انڈسٹری کو ترقی کا موقع ملے گا
- نئے روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے
گوشت کے ساتھ ساتھ لائیو اینیملز (براہ راست جانوروں) کی برآمدات پر بھی بات ہوئی، جو مستقبل میں ایک بڑے تجارتی شعبے میں تبدیل ہو سکتی ہے۔
آم اور مکئی: مزید برآمدی مواقع
اجلاس کے دوران پاکستانی آموں کی برآمدات میں حائل رکاوٹوں کا بھی تفصیلی جائزہ لیا گیا۔ ایرانی حکومت نے آموں کے لیے:
- درآمدی پرمٹس جاری کرنے
- زرمبادلہ کے مسائل حل کرنے
- اور سرٹیفیکیشن پراسس کو آسان بنانے کی یقین دہانی کروائی ہے
پاکستانی آم اپنی اعلیٰ کوالٹی، مٹھاس، اور ذائقے کے باعث دنیا بھر میں پسند کیے جاتے ہیں۔ ایرانی مارکیٹ اس کے لیے ایک نیا بڑا دروازہ ثابت ہو سکتی ہے۔
اسی طرح ایران نے مکئی (Maize) کی بھی بڑی مقدار میں خریداری میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔ یہ پیش رفت مکئی کی کاشت کرنے والے کسانوں کے لیے خوشخبری ہے، جو کئی سالوں سے مناسب قیمت نہ ملنے کی شکایت کرتے رہے ہیں۔
زرعی تحقیقاتی اشتراک: علم کی منتقلی کی راہیں ہموار
اجلاس کے ایک اور اہم پہلو میں پاکستان زرعی تحقیقاتی کونسل (PARC) اور ایرانی تحقیقاتی اداروں کے درمیان سائنسی و تحقیقی تعاون بڑھانے پر بھی اتفاق کیا گیا۔ اس اشتراک سے:
- جدید زرعی ٹیکنالوجی کا تبادلہ
- بیماریوں سے پاک فصلوں کی ترقی
- کاشتکاری کے جدید طریقے
- اور ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے مشترکہ تحقیق ممکن ہو سکے گی
یہ اقدامات نہ صرف پیداوار بڑھانے میں مددگار ہوں گے بلکہ پائیدار زرعی ترقی کی بنیاد بھی رکھیں گے۔
تجارتی سہولتوں میں انقلابی بہتری
رانا تنویر حسین نے بتایا کہ دونوں ممالک نے اتفاق کیا ہے کہ کسٹم کلیئرنس کے عمل کو تیز اور شفاف بنایا جائے گا تاکہ تاجروں کو غیر ضروری رکاوٹوں کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ اس کے ساتھ ساتھ:
- بارڈر سسٹم کی بہتری
- ریگولیٹری پیچیدگیوں میں کمی
- اور آن لائن کلیئرنس میکانزم پر بھی بات چیت ہوئی
- یہ اقدامات یقینی طور پر وقت اور لاگت کی بچت کا باعث بنیں گے۔
آزاد تجارتی معاہدہ (FTA): دونوں ممالک کا اہم قدم
دونوں حکومتوں نے اس بات پر بھی اتفاق کیا کہ آزاد تجارتی معاہدے (Free Trade Agreement) کی طرف پیش رفت کی جائے گی تاکہ ایک دوسرے کی مارکیٹوں میں زیرو یا کم ٹیرف کے ساتھ برآمدات ممکن ہو سکیں۔ FTA سے:
- ایکسپورٹرز کو نئی راہیں ملیں گی
- ٹیکس بوجھ کم ہوگا
- مقامی صنعتوں کو فروغ ملے گا
- اور دو طرفہ تجارتی حجم میں نمایاں اضافہ ممکن ہوگا
عمل درآمد کے لیے مشترکہ کمیٹی کا قیام
تمام فیصلوں کو عملی شکل دینے کے لیے ایک مشترکہ کمیٹی بھی قائم کی گئی ہے جو:
- ہر چھ ماہ بعد اجلاس کرے گی
- طے شدہ نکات پر پیش رفت کا جائزہ لے گی
- اور تجارتی رکاوٹوں کو فوری حل کرنے کے لیے سفارشات دے گی
یہ کمیٹی دونوں ممالک کے وزارتی، تکنیکی اور تجارتی نمائندوں پر مشتمل ہوگی، جو باہمی مشاورت سے تمام نکات پر عمل درآمد یقینی بنائے گی۔
پاکستان کے لیے ایک نیا معاشی موقع
یہ معاہدے پاکستان کے لیے زرعی شعبے میں ایک نئے معاشی دور کی نوید ہیں۔ ایران جیسی بڑی اور قریبی مارکیٹ تک رسائی نہ صرف زرمبادلہ میں اضافے کا باعث بنے گی بلکہ مقامی کسانوں، ایکسپورٹرز اور انڈسٹریز کے لیے بھی سنہری مواقع لے کر آئے گی۔
وفاقی وزیر رانا تنویر حسین نے ایران کی حکومت کے تعمیری رویے، مہمان نوازی، اور مسئلہ فہمی کو سراہتے ہوئے اس امید کا اظہار کیا کہ دونوں ممالک کے درمیان زرعی تعاون کا یہ نیا سفر خطے میں غذائی تحفظ، معاشی خوشحالی اور تجارتی استحکام کا ضامن بنے گا۔
"ہمیں اپنے کسانوں، ایکسپورٹرز، اور تحقیقاتی اداروں کو اس موقع سے فائدہ اٹھانے کے لیے متحرک کرنا ہوگا۔ ایران کے ساتھ مضبوط زرعی شراکت داری مستقبل میں پاکستان کے لیے معاشی ترقی کا دروازہ کھول سکتی ہے۔”
READ MORE FAQs.
ایران پاکستان زرعی تجارت میں سب سے اہم معاہدہ کیا ہے؟
سب سے اہم معاہدہ ایران کی جانب سے اپنی 60 فیصد گوشت کی ضرورت پاکستان سے خریدنے کا فیصلہ ہے
کیا ایرانی منڈی میں پاکستانی آموں کی برآمد ممکن ہوگی؟
جی ہاں، ایران نے آموں کی درآمد پر عائد رکاوٹیں ختم کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے
اس معاہدے سے پاکستان کو کتنا فائدہ ہوگا؟
جواب: اس معاہدے سے پاکستان کو اربوں ڈالر کا زرمبادلہ ملنے کی توقع ہے اور کسانوں کو عالمی منڈی تک رسائی ملے گی

Comments 1