پنجاب اور خیبرپختونخوا بارشیں اور ڈیموں میں پانی کی سطح بلند
پنجاب اور خیبرپختونخوا میں شدید بارشیں اور سیلاب: ڈیمز میں پانی کی سطح بلند، ہزاروں افراد متاثر
پاکستان کے مختلف علاقوں، خصوصاً پنجاب اور خیبرپختونخوا، میں حالیہ دنوں میں ہونے والی شدید بارشوں اور بھارت کی جانب سے پانی چھوڑنے کے باعث ندی نالوں، دریاؤں اور ڈیموں میں پانی کی سطح تشویشناک حد تک بلند ہو چکی ہے۔ اس صورتحال نے ملک کے مختلف حصوں میں سیلابی کیفیت پیدا کر دی ہے، جس کے نتیجے میں کئی نشیبی علاقے زیر آب آ گئے ہیں، ہزاروں ایکڑ پر کھڑی فصلیں تباہ ہو گئی ہیں اور لاکھوں افراد متاثر ہو چکے ہیں۔
ڈیموں میں پانی کی بلند سطح: خطرے کی گھنٹی
فلڈ فورکاسٹنگ ڈویژن کے مطابق ملک کے اہم آبی ذخائر میں پانی کی سطح خطرناک حد تک بلند ہو چکی ہے۔ منگلا ڈیم میں پانی کی سطح 1219.40 فٹ تک پہنچ چکی ہے، جو اس کی گنجائش کا 76 فیصد بنتی ہے۔ اس کے علاوہ:
- راول ڈیم: 1751.70 فٹ
- خانپور ڈیم: 1979 فٹ
- سملی ڈیم: 2313.90 فٹ
- تربیلا ڈیم: 1549.20 فٹ (جو 99 فیصد گنجائش کے برابر ہے)
ان اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ ڈیمز بھر چکے ہیں یا بھرنے کے قریب ہیں، جو کسی بھی وقت خطرناک صورتحال اختیار کر سکتے ہیں، خاص طور پر اگر مزید بارشیں ہوئیں یا بھارت کی جانب سے پانی کا اضافی اخراج کیا گیا۔
دریاؤں کی صورتحال: شدید اور درمیانے درجے کا سیلاب
دریائے سندھ:
گڈو بیراج کے مقام پر اونچے درجے کا سیلاب ریکارڈ کیا گیا ہے۔ یہاں پانی کی آمد 5 لاکھ 43 ہزار 184 کیوسک جبکہ اخراج 5 لاکھ 7 ہزار 853 کیوسک ریکارڈ کیا گیا ہے۔ یہ اعداد و شمار واضح کرتے ہیں کہ بیراج پر شدید دباؤ موجود ہے اور نشیبی علاقے زیر آب آ رہے ہیں۔
دریائے ستلج:
گنڈا سنگھ والا کے مقام پر اونچے درجے کا سیلاب ہے، جبکہ ہیڈ سلیمانکی پر درمیانے درجے کا سیلاب موجود ہے۔ یہاں پانی کی سطح میں تیزی سے اضافہ بھارت کی جانب سے دریائے ستلج میں پانی چھوڑنے کے بعد ہوا، جس نے کئی گاؤں اور نشیبی علاقوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔
دریائے چناب:
دریائے چناب میں بھی پانی کی سطح میں اضافہ ہوا ہے، بالخصوص بھارت کی جانب سے پانی چھوڑنے کے بعد، جس کی وجہ سے کئی دیہات زیر آب آ چکے ہیں۔
دریائے راوی، جہلم اور کابل:
دریائے راوی پر بہاؤ تاحال معمول کے مطابق ہے، تاہم اس سے ملحقہ نالہ بسنتر میں نچلے درجے کا سیلاب ریکارڈ کیا گیا ہے۔ دریائے جہلم، چناب، کابل اور ناری کے اہم مقامات پر بہاؤ معمول کے مطابق ہے، مگر خطرہ بدستور موجود ہے کیونکہ شدید بارشوں کا سلسلہ جاری ہے۔
پہاڑی نالوں میں بہاؤ: ممکنہ لینڈ سلائیڈنگ کا خدشہ
ڈیرہ غازی خان (ڈی جی خان) ریجن:
یہاں کے پہاڑی نالوں سنگھڑ، وہواء اور کوڑا میں فی الوقت بہاؤ معمول کے مطابق ہے، تاہم اگر بارشوں میں شدت آئی تو یہ نالے شدید تباہی کا باعث بن سکتے ہیں۔
راجن پور ریجن:
راجن پور کے پہاڑی برساتی نالوں میں اس وقت کوئی بہاؤ ریکارڈ نہیں کیا گیا، تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ مون سون کی اگلی لہر ان علاقوں کو متاثر کر سکتی ہے۔
بھارت کی طرف سے پانی کا اخراج: خطرات میں اضافہ
ایک انتہائی اہم پہلو بھارت کی جانب سے دریاؤں میں اچانک پانی چھوڑنا ہے، خاص طور پر دریائے چناب اور ستلج میں۔ اس یکطرفہ اقدام سے پاکستانی علاقوں میں نہ صرف سیلاب آیا ہے بلکہ ہزاروں ایکڑ پر کھڑی فصلیں مکمل طور پر تباہ ہو گئی ہیں۔ اس کے علاوہ کئی دیہات اور بستیاں زیر آب آ گئی ہیں، جس سے مقامی آبادی کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔
زرعی نقصانات: کسان شدید پریشانی کا شکار
دریاؤں اور نالوں میں سیلابی صورتحال کے باعث ہزاروں ایکڑ زرعی زمین زیر آب آ گئی ہے، خاص طور پر پنجاب کے نشیبی علاقوں میں۔ گندم، کپاس، مکئی اور دیگر فصلیں بری طرح متاثر ہو چکی ہیں۔ فصلوں کی تباہی نے نہ صرف کسانوں کو معاشی دھچکا پہنچایا ہے بلکہ ملکی معیشت کو بھی نقصان کا خدشہ ہے۔
متاثرہ علاقوں میں صورتحال: انخلا اور امدادی سرگرمیاں
نشیبی علاقوں میں لوگ اپنے گھروں سے محفوظ مقامات کی طرف نقل مکانی کر رہے ہیں۔ بعض مقامات پر ریسکیو اداروں کی مدد سے لوگوں کو نکالا جا رہا ہے، جبکہ کہیں کہیں مقامی افراد اپنی مدد آپ کے تحت نقل مکانی کر رہے ہیں۔
حکومتی اداروں نے الرٹ جاری کر دیے ہیں اور کچھ علاقوں میں ریڈ الرٹ نافذ کیا جا چکا ہے۔ متاثرہ علاقوں میں ریلیف کیمپ قائم کیے جا رہے ہیں جہاں لوگوں کو پناہ دی جا رہی ہے، مگر سہولیات کی کمی کے باعث وہاں رہنا بھی ایک مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔
تربیلا ڈیم الرٹ
تربیلا ڈیم کے سپل ویز شام 7:30 بجے (23اگست 2025) سے اپریشن میں لائے جایئں گے اور ڈیم سے ٹوٹل اخراج 250000 کیوسک تک اور سیلابی سطح نیچلے درجے کے سیلاب میں رہنے کا امکان۔ نشیبی علاقوں کے مکین حفاظتی اقدامات اپنائیں اور مقامی انتظامیہ کی ہدایات پر عمل کریں ۔ pic.twitter.com/inQpf0Xua8
— NDMA PAKISTAN (@ndmapk) August 23, 2025
ماہرین کی رائے: مستقبل کی حکمت عملی کی ضرورت
ماہرین موسمیات اور آبی وسائل کا کہنا ہے کہ اگر بروقت اقدامات نہ کیے گئے تو صورتحال مزید بگڑ سکتی ہے۔ ماہرین تجویز دے رہے ہیں کہ:
- ڈیموں کے پانی کی بروقت نکاسی کی جائے
- خطرناک علاقوں سے فوری انخلا یقینی بنایا جائے
- بارشوں اور دریاؤں کے پانی کی نگرانی کے لیے ٹیکنالوجی کا استعمال بڑھایا جائے
- بھارت کے ساتھ آبی معاہدوں پر نظرثانی کی جائے
چیلنجز اور ذمہ داریاں
پاکستان اس وقت قدرتی آفات کے دہانے پر کھڑا ہے، جہاں موسمیاتی تبدیلی، ناقص منصوبہ بندی اور ہمسایہ ممالک کے اقدامات مل کر بحران کو جنم دے رہے ہیں۔ موجودہ صورتحال نہ صرف ایک ماحولیاتی اور انسانی المیہ ہے بلکہ یہ ایک پالیسیاں ترتیب دینے والے اداروں کے لیے بھی سوالیہ نشان ہے کہ آخر کب اور کیسے ان مسائل کا حل نکالا جائے گا۔


Comments 2