این ایف سی اجلاس: وسائل کی منصفانہ تقسیم کے لیے نئے فارمولے پر غور
پاکستان میں قابل تقسیم مالی وسائل کی منصفانہ تقسیم ہمیشہ سے ایک اہم مسئلہ رہا ہے۔ اسی سلسلے میں گیارہویں این ایف سی اجلاس 29 اگست کو طلب کیا گیا ہے، جس کی صدارت وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کریں گے۔ اس اجلاس میں مرکز اور صوبوں کے درمیان وسائل کی تقسیم کے فارمولے پر نظرثانی کی جائے گی تاکہ تمام صوبوں کو ان کے حالات اور ضروریات کے مطابق حصہ دیا جا سکے۔
موجودہ این ایف سی فارمولہ اور مسائل
فی الحال موجودہ این ایف سی ایوارڈ کے تحت:
صوبوں کو 57.5 فیصد وسائل دیے جاتے ہیں۔
وفاق کے پاس قرضوں کی ادائیگی اور دفاعی اخراجات کے لیے محدود وسائل بچتے ہیں۔
یہ صورتحال وفاق اور صوبوں دونوں کے لیے مالی مشکلات پیدا کر رہی ہے، جس کے باعث ایک نئے اور جامع فارمولے کی ضرورت شدت سے محسوس کی جا رہی ہے۔
خیبرپختونخوا کا موقف
خیبرپختونخوا کے وزیر خزانہ مزمل اسلم نے ایک سیمینار میں کہا کہ وسائل کی تقسیم میں موجودہ فارمولا صوبوں کے درمیان توازن قائم نہیں کر پاتا۔
موجودہ فارمولے میں 82 فیصد وسائل آبادی کی بنیاد پر تقسیم ہوتے ہیں۔
صرف 10.6 فیصد وسائل پسماندگی کے معیار پر تقسیم کیے جاتے ہیں۔
انہوں نے تجویز دی کہ نئے فارمولے میں شجرکاری، خوشحالی اور موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو بھی شامل کیا جائے تاکہ وسائل کی تقسیم زیادہ منصفانہ ہو سکے۔
وفاقی حکومت کا موقف
وفاقی حکومت اجلاس میں صوبوں کو یہ بھی آگاہ کرے گی کہ قرضوں کی ادائیگی، دفاع، انسداد دہشت گردی اور بی آئی ایس پی کے اخراجات پورے کرنے کے لیے مرکز کے پاس وسائل ناکافی ہیں۔ اسی لیے وسائل کی تقسیم کے فارمولے میں ایسے عوامل شامل کرنے کی ضرورت ہے جو مالی دباؤ کو کم کر سکیں۔
دیگر اہم تجاویز
وفاقی وزیر احسن اقبال نے بھی تجویز دی ہے کہ آبادی کے حصے کو 82 فیصد سے کم کرکے 60 فیصد کیا جائے۔
وسائل کی تقسیم میں شجرکاری، موسمیاتی تبدیلی اور معاشی خوشحالی جیسے عوامل کو اہمیت دی جائے۔
چھوٹے صوبوں جیسے بلوچستان اور خیبرپختونخوا کو ترقیاتی منصوبوں میں زیادہ حصہ دیا جائے۔
پسماندہ صوبوں کے تحفظات
خیبرپختونخوا اور بلوچستان نے شکایت کی ہے کہ ترقیاتی منصوبوں میں ان کے حصے کو مسلسل نظرانداز کیا جا رہا ہے۔
مزمل اسلم نے کہا کہ لیفٹ بینک کینال کے لیے وفاقی فنڈز کا وعدہ پورا نہیں کیا گیا۔
نیشنل ہائی وے اتھارٹی بھی زیادہ تر منصوبے پنجاب اور سندھ میں مکمل کر رہی ہے جبکہ چھوٹے صوبے پیچھے رہ گئے ہیں۔
ماہرین کی آراء
معاشی ماہرین کے مطابق:
نئے فارمولے میں زراعت کے لیے بڑے ڈیموں کی تعمیر کو بھی شامل کیا جائے تاکہ پانی کے ذخائر کو بہتر بنایا جا سکے۔
زراعت چونکہ صوبائی معاملہ ہے، اس لیے این ایف سی میں اس مقصد کے لیے مخصوص فنڈز رکھنا ضروری ہے۔
ممکنہ نتائج
29 اگست کو ہونے والے این ایف سی اجلاس سے درج ذیل فیصلے سامنے آ سکتے ہیں:
وسائل کی تقسیم کا نیا فارمولا جس میں آبادی کا حصہ کم ہو گا۔
موسمیاتی تبدیلی اور شجرکاری کو ترجیحی بنیادوں پر شامل کرنا۔
پسماندہ صوبوں کے لیے ترقیاتی فنڈز میں اضافے کا اعلان۔
عوام اور کاروباری طبقے کی توقعات
کاروباری طبقے اور عام عوام دونوں کی نظریں اس اجلاس پر جمی ہوئی ہیں، کیونکہ وسائل کی منصفانہ تقسیم براہِ راست ملکی معیشت اور عوامی ترقی پر اثرانداز ہوتی ہے۔
گیارہواں این ایف سی اجلاس 29 اگست کو طلب، مرکز اور صوبوں میں وسائل کی تقسیم پر اہم فیصلہ متوقع
این ایف سی اجلاس ایک ایسا موقع ہے جہاں وفاق اور صوبے مل بیٹھ کر ایک ایسا فارمولا طے کر سکتے ہیں جو تمام فریقین کے لیے قابل قبول ہو۔ اگر وسائل کی تقسیم میں شفافیت اور انصاف کو یقینی بنایا گیا تو یہ ملکی معیشت اور صوبائی ترقی دونوں کے لیے مثبت ثابت ہوگا۔

