پاکستان ایک بار پھر پولیو کے خطرے سے دوچار ہے اور تازہ ترین اعداد و شمار نے صورتحال کی سنگینی کو واضح کر دیا ہے
روٹری انٹرنیشنل کے وفد نے انکشاف کیا ہے کہ اس وقت پاکستان میں 8 لاکھ بچے پولیو ویکسین سے محروم ہیں، جو پولیو کے خاتمے کی مہم کے لیے سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
پولیو ایمرجنسی آپریشن سینٹر کا دورہ
روٹری انٹرنیشنل کے وفد نے اسلام آباد میں پولیو ایمرجنسی آپریشن سینٹر کا دورہ کیا اور وہاں موجود حکام سے بریفنگ لی۔ بریفنگ کے دوران بتایا گیا کہ پاکستان میں انسداد پولیو مہم بھرپور انداز میں جاری ہے، مگر اب بھی لاکھوں بچے ویکسین سے محروم رہ جاتے ہیں۔ یہ محرومی مختلف وجوہات کی بنا پر سامنے آتی ہے، جن میں والدین کی مزاحمت، سیکیورٹی مسائل اور جغرافیائی مشکلات شامل ہیں۔

وفد کے مطابق پاکستان میں انسداد پولیو مہم کے دوران پولیو ورکرز نے بڑی قربانیاں دی ہیں۔ اب تک تقریباً 100 پولیو ورکرز اور سیکیورٹی اہلکار اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر چکے ہیں۔ یہ قربانیاں اس حقیقت کو اجاگر کرتی ہیں کہ پولیو کے خلاف جنگ محض طبی یا انتظامی نہیں بلکہ ایک قومی سلامتی کا مسئلہ بھی ہے۔
آلودہ پانی اور پولیو وائرس کا پھیلاؤ
روٹری انٹرنیشنل کے ماہرین نے اپنی بریفنگ میں ایک اور تشویشناک پہلو اجاگر کیا۔ ان کے مطابق پولیو وائرس محض متاثرہ افراد سے دوسرے افراد میں منتقل نہیں ہوتا بلکہ یہ آلودہ پانی کے ذریعے بھی پھیل سکتا ہے۔ پاکستان میں صاف پانی کی عدم دستیابی ایک بڑا چیلنج ہے اور یہی مسئلہ پولیو کے مکمل خاتمے میں بڑی رکاوٹ ہے۔

اسی وجہ سے حکومت اور غیر ملکی ادارے اس وقت ملک بھر میں واٹر فلٹریشن پلانٹس لگانے پر کام کر رہے ہیں تاکہ عوام کو پینے کے صاف پانی کی فراہمی یقینی بنائی جا سکے۔ یہ اقدامات نہ صرف پولیو بلکہ ہیپاٹائٹس اور دیگر پانی سے پھیلنے والی بیماریوں کی روک تھام میں بھی مددگار ثابت ہوں گے۔
پولیو کے خلاف عالمی کوششیں اور پاکستان
وفد کے اراکین نے پرامید انداز میں کہا کہ اگر دنیا کے دیگر ممالک میں پولیو کا خاتمہ ممکن ہوا ہے تو پاکستان اور افغانستان بھی اس سے پاک ہو سکتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان دنیا کے ان چند ممالک میں شامل ہے جہاں پولیو وائرس اب بھی موجود ہے، اس لیے یہ عالمی برادری کے لیے بھی ایک بڑا امتحان ہے۔
روٹری انٹرنیشنل کے نمائندوں نے کہا کہ وہ پاکستان میں پولیو کے خاتمے کے لیے اپنی بھرپور حمایت جاری رکھیں گے۔ تاہم انہوں نے زور دیا کہ حکومت، سول سوسائٹی اور والدین کو بھی اس مہم میں بھرپور کردار ادا کرنا ہوگا۔
انسداد پولیو مہم کو درپیش چیلنجز
انسداد پولیو مہم کو سب سے بڑا مسئلہ عوامی شعور کی کمی ہے۔ کچھ علاقوں میں والدین اب بھی پولیو ویکسین پلانے سے ہچکچاتے ہیں، جس کی وجہ غلط فہمیاں اور افواہیں ہیں۔ بعض والدین یہ سمجھتے ہیں کہ ویکسین نقصان دہ ہے یا اس کے مضر اثرات ہو سکتے ہیں۔
اس کے علاوہ قبائلی اور دور دراز علاقوں میں سیکیورٹی کی صورتحال بھی ایک بڑا چیلنج ہے۔ ماضی میں پولیو ورکرز اور ان کی حفاظت پر مامور اہلکاروں پر دہشت گردوں نے حملے کیے، جس کی وجہ سے کئی علاقے "ہائی رسک زون” قرار پائے۔
حکومت پاکستان کے اقدامات
حکومت پاکستان اس وقت انسداد پولیو مہم کو مزید مؤثر بنانے کے لیے مختلف اقدامات کر رہی ہے۔ موبائل ٹیموں کی تعداد بڑھائی جا رہی ہے تاکہ ہر بچے تک ویکسین پہنچ سکے۔ اس کے ساتھ ساتھ مساجد، اسکولوں اور کمیونٹی لیڈرز کے ذریعے عوامی آگاہی مہم بھی چلائی جا رہی ہے تاکہ والدین میں ویکسین کے حوالے سے اعتماد پیدا کیا جا سکے۔
مزید برآں، حکومت نے پولیو کے خاتمے کے لیے ایک مربوط حکمت عملی تیار کی ہے جس میں صحت، تعلیم اور مقامی حکومتوں کے ادارے بھی شامل ہیں۔ اس حکمت عملی کا مقصد صرف پولیو ویکسینیشن نہیں بلکہ صاف پانی کی فراہمی اور غذائی قلت جیسے مسائل کو بھی حل کرنا ہے، جو پولیو وائرس کے پھیلاؤ میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔
عالمی برادری کی تشویش
اقوام متحدہ، عالمی ادارہ صحت (WHO) اور دیگر بین الاقوامی تنظیمیں بھی پاکستان کی اس صورتحال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔ ان اداروں نے بارہا کہا ہے کہ اگر پاکستان پولیو سے پاک نہ ہو سکا تو یہ وائرس دوبارہ دنیا کے دیگر خطوں میں پھیل سکتا ہے۔ اسی لیے دنیا کی نظریں پاکستان پر جمی ہوئی ہیں اور بین الاقوامی فنڈنگ کے ذریعے انسداد پولیو مہم کو تقویت دی جا رہی ہے۔

ماہرین کی تجاویز
ماہرین صحت کے مطابق پاکستان میں پولیو کے مکمل خاتمے کے لیے تین بڑے اقدامات ضروری ہیں:
- ہر بچے تک ویکسین کی رسائی – خاص طور پر ان 8 لاکھ بچوں تک جو اب بھی ویکسین سے محروم ہیں۔
- صاف پانی کی فراہمی – کیونکہ آلودہ پانی پولیو وائرس کے پھیلاؤ کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔
- عوامی شعور بیداری – والدین کو ویکسین کی اہمیت سمجھانا اور ان کی غلط فہمیوں کا ازالہ کرنا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر یہ تین نکات مؤثر انداز میں اپنائے جائیں تو پاکستان جلد ہی پولیو سے پاک ہو سکتا ہے۔
خطرناک پولیو وائرس کی موجودگی، 10 ماحولیاتی نمونے مثبت پائے گئے
امید کی کرن
چیلنجز کے باوجود روٹری انٹرنیشنل کے وفد نے امید ظاہر کی کہ پاکستان میں پولیو کے خاتمے کی مہم کامیاب ہو سکتی ہے۔ ان کے مطابق یہ صرف وقت اور حکمت عملی کا معاملہ ہے۔ جس طرح دنیا کے دیگر ممالک نے پولیو کو شکست دی، پاکستان بھی اس بیماری پر قابو پا سکتا ہے
Comments 1