حکومت چینی کا بحران ختم کرنے میں ناکام – عوام اور تاجروں کی مشکلات میں اضافہ
پاکستان میں چینی کا بحران ایک بار پھر شدت اختیار کر گیا ہے، اور عوام کے ساتھ ساتھ تاجروں کو بھی شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ صدر آل پاکستان انجمن تاجران، اجمل بلوچ کے مطابق، حکومتی اقدامات اب تک اس بحران کو ختم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے، جس کی وجہ سے ہول سیل مارکیٹیں بند اور عوام مہنگی چینی خریدنے پر مجبور ہیں۔
ہول سیل منڈیوں کی بندش
اجمل بلوچ کا کہنا ہے کہ اسلام آباد سمیت کئی شہروں کی ہول سیل منڈیاں غیر معینہ مدت کے لیے بند پڑی ہیں۔ یہ صورتحال ظاہر کرتی ہے کہ چینی کا بحران صرف عوام تک محدود نہیں رہا بلکہ سپلائی چین اور کاروباری حلقے بھی بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔
ہول سیل مارکیٹیں بند ہونے سے کریانہ اسٹورز پر سپلائی کا دباؤ بڑھ گیا ہے۔
عام صارفین کو مہنگی چینی خریدنے کے باوجود قلت کا سامنا ہے۔
چینی مہنگی خرید کر سستی بیچنے کی پالیسی پر اعتراض
تاجروں نے حکومت کی اس پالیسی کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے جس کے تحت چینی مہنگے داموں خریدی جاتی ہے لیکن مارکیٹ میں کم قیمت پر فراہم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
اجمل بلوچ کا کہنا ہے کہ یہ پالیسی غیر منطقی ہے اور اس سے چینی کے بحران میں مزید اضافہ ہو رہا ہے کیونکہ سپلائی کم اور طلب زیادہ ہے۔
شوگر ملز میں چینی کا ختم ہوتا ہوا اسٹاک
چند ہفتے قبل صدر آل پاکستان انجمن تاجران نے اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ شوگر ملز کے پاس موجود اسٹاک تیزی سے ختم ہو رہا ہے۔
سینٹرل پنجاب کی 70 فیصد شوگر ملز کا اسٹاک ختم ہو چکا ہے۔
جنوبی پنجاب کی ملز نے گزشتہ کئی دنوں سے سپلائی روک رکھی ہے۔
اس صورتحال نے چینی کا بحران مزید بڑھا دیا ہے، جس کا براہِ راست اثر عام صارفین اور ریٹیلرز پر پڑ رہا ہے۔
کریانہ ریٹیلرز پر دباؤ اور گرفتاریوں کا سلسلہ
چینی کی قلت کے دوران مارکیٹ میں کارروائیوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ اجمل بلوچ کے مطابق:
جس دکان پر چینی دستیاب نہیں، اسے سیل کر دیا جاتا ہے، جو ایک ظالمانہ اقدام ہے۔
ریٹیلرز کی گرفتاریوں سے چینی کا بحران ختم نہیں ہو سکتا۔
اس مسئلے کا واحد حل یہ ہے کہ حکومت اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ بیٹھ کر عملی حکمتِ عملی تیار کرے۔
عوامی مشکلات میں اضافہ
چینی کا بحران نے عام گھرانوں کے بجٹ کو شدید متاثر کیا ہے۔
فی کلو چینی کی قیمت میں ریکارڈ اضافہ ہو چکا ہے۔
عام آدمی کے لیے مہنگائی کے طوفان میں گھر کا بجٹ بنانا مزید مشکل ہو گیا ہے۔
مٹھائی، بیکری اور دیگر کاروبار جو چینی پر انحصار کرتے ہیں، ان کی مصنوعات کی قیمتیں بھی بڑھ گئی ہیں، جس سے عوام پر مزید بوجھ پڑ رہا ہے۔
حکومتی اقدامات اور ناکام پالیسی
حکومت کی جانب سے چینی کے بحران پر قابو پانے کے لیے کچھ اقدامات کیے گئے ہیں، جن میں:
شوگر ملز کو فوری سپلائی بحال کرنے کی ہدایت
ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کارروائیاں
مارکیٹ میں سرکاری ریٹ کے مطابق چینی فراہم کرنے کی کوششیں
لیکن یہ اقدامات عملی طور پر ناکام نظر آتے ہیں کیونکہ:
سپلائی چین میں رکاوٹیں برقرار ہیں۔
مارکیٹ میں طلب کے مقابلے میں سپلائی کم ہے۔
ذخیرہ اندوزی کو ختم کرنے کے لیے مؤثر حکمتِ عملی نہیں اپنائی گئی۔
معیشت پر اثرات
چینی کے بحران نے نہ صرف گھریلو صارفین کو متاثر کیا ہے بلکہ ملکی معیشت پر بھی منفی اثرات مرتب کیے ہیں:
بیکری، مٹھائی اور کولڈ ڈرنک انڈسٹری کو خام مال مہنگا پڑ رہا ہے۔
چینی سے منسلک کاروبار بند ہونے کے خدشات بڑھ گئے ہیں۔
برآمدات کے شعبے پر بھی دباؤ ہے کیونکہ لوکل سپلائی پہلے ہی کم ہے۔
ماہرین کی رائے
معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ چینی کا بحران بنیادی طور پر انتظامی ناکامی اور پالیسی کی کمزوری کا نتیجہ ہے۔
حکومت نے وقت پر شوگر ملز اور تاجروں کے ساتھ مل کر کوئی مربوط حکمتِ عملی نہیں بنائی۔
ذخیرہ اندوزوں کو کھلی چھوٹ دی گئی، جس کا خمیازہ اب عوام اور کاروباری طبقہ بھگت رہا ہے۔
شفاف نظام اور سخت مانیٹرنگ ہی اس بحران کے مستقل خاتمے کا حل ہیں۔
بحران کے ممکنہ حل
تاجروں اور ماہرین نے چینی کے بحران کے حل کے لیے چند تجاویز پیش کی ہیں:
شوگر ملز کی فوری سپلائی بحال کرنا تاکہ مارکیٹ میں طلب اور رسد کا توازن قائم ہو سکے۔
ذخیرہ اندوزوں کے خلاف سخت کارروائیاں تاکہ مصنوعی قلت پیدا نہ کی جا سکے۔
حکومت اور اسٹیک ہولڈرز کا باہمی رابطہ تاکہ عملی پالیسی تیار کی جا سکے۔
امپورٹ پالیسی کا جائزہ تاکہ ضرورت پڑنے پر چینی درآمد کر کے بحران پر قابو پایا جا سکے۔
عوام کی امیدیں
عوام اس وقت حکومت سے یہی توقع رکھتے ہیں کہ وہ فوری اور مؤثر اقدامات کر کے چینی کے بحران کو ختم کرے۔ اگر یہ صورتحال برقرار رہی تو:
مہنگائی کا دباؤ مزید بڑھے گا۔
متوسط اور غریب طبقے کی مشکلات میں اضافہ ہوگا۔
معیشت میں غیر یقینی صورتحال مزید شدت اختیار کرے گی۔
نتیجہچینی کی قیمت میں پھر اضافہ: فی کلو ریٹیل قیمت 195 روپے تک پہنچ گئی
پاکستان میں جاری چینی کا بحران حکومت، تاجروں اور عوام سب کے لیے ایک بڑا امتحان بن چکا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت فوری طور پر ٹھوس اقدامات کرے، ذخیرہ اندوزوں کے خلاف سخت کارروائی کرے، اور سپلائی چین کو مستحکم بنائے تاکہ عوام کو ریلیف مل سکے اور مارکیٹ میں استحکام پیدا ہو۔