غزہ میں قیامت صغریٰ: بربادی، بھوک اور بے گھر انسان
غزہ ایک بار پھر اسرائیلی بمباری کی لپیٹ میں ہے، جہاں جمعرات کی صبح سے اب تک ہونے والی وحشیانہ فضائی اور زمینی کارروائی میں کم از کم 50 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔ ان میں عورتیں اور معصوم بچے بھی شامل ہیں جن کے وجود ملبے کے ڈھیر تلے دب گئے۔ یہ کوئی پہلی بار نہیں بلکہ پچھلے کئی مہینوں سے جاری جنگی صورتحال کا تسلسل ہے جس نے اس ساحلی پٹی کو قبرستان میں بدل دیا ہے۔

الجزیرہ کی تازہ رپورٹ کے مطابق اسرائیلی فوج نے غزہ شہر کے مشرقی اور جنوبی حصوں کو نشانہ بنایا ہے۔ زیتون اور شجاعیہ کے علاقے بدترین بمباری کی زد میں ہیں جہاں سینکڑوں گھروں کو زمین بوس کر دیا گیا۔ غزہ کی سول ڈیفنس ایجنسی کے مطابق صرف ان دو علاقوں میں 1500 سے زائد مکانات تباہ ہو گئے ہیں اور ہزاروں افراد اپنا سب کچھ چھوڑ کر ساحل کی طرف پناہ لینے پر مجبور ہیں۔
بھوک سے مرنے والوں کی تعداد میں خطرناک اضافہ
غزہ کی وزارتِ صحت نے تصدیق کی ہے کہ غذائی قلت کی وجہ سے مزید 4 افراد جاں بحق ہوئے ہیں، جن میں 2 بچے بھی شامل ہیں۔ یوں بھوک اور قحط کے باعث شہید ہونے والوں کی تعداد 317 تک پہنچ گئی ہے۔ یہ اعداد و شمار اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ اسرائیلی بمباری کے ساتھ ساتھ خوراک اور ادویات کی شدید کمی بھی فلسطینی عوام کے لیے جان لیوا بن چکی ہے۔
رپورٹس کے مطابق اسرائیل کی جانب سے بار بار کی جانے والی سرحدی ناکہ بندی، اقوام متحدہ کے امدادی قافلوں پر رکاوٹیں اور کھانے پینے کی اشیاء کی قلت نے صورتحال کو مزید گھمبیر بنا دیا ہے۔ غزہ کے ہسپتالوں میں بھی شدید بحران ہے، جہاں زخمیوں کے علاج کے لیے دوائیں اور آلات موجود نہیں۔

مجموعی ہلاکتیں خوفناک سطح پر
غزہ کی وزارتِ صحت کے اعداد و شمار کے مطابق اب تک مجموعی طور پر 62 ہزار 900 سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔ ان میں اکثریت عورتوں اور بچوں کی ہے جو سب سے زیادہ غیر محفوظ ہیں۔ اسرائیلی بمباری نے صرف انسانوں کو ہی نہیں بلکہ غزہ کے بنیادی ڈھانچے کو بھی مٹی کا ڈھیر بنا دیا ہے۔ اسپتال، اسکول، پناہ گزین کیمپ، مساجد اور یہاں تک کہ اقوام متحدہ کے زیر انتظام مراکز بھی بمباری سے محفوظ نہیں رہے۔
اسرائیلی بمباری اور عالمی ردعمل
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے ایک بار پھر خبردار کیا ہے کہ غزہ میں فوجی کارروائی تباہ کن ثابت ہو گی۔ ان کے مطابق لاکھوں شہری مزید بے گھر ہونے پر مجبور ہو جائیں گے اور انسانی بحران بدترین سطح اختیار کر لے گا۔
امریکہ، یورپی یونین اور عرب لیگ کی جانب سے بھی اسرائیلی بمباری پر شدید تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں نے کہا ہے کہ غزہ میں ہونے والے حملے جنگی جرائم کے زمرے میں آتے ہیں اور عالمی عدالت انصاف کو فوری طور پر اس کا نوٹس لینا چاہیے۔
غزہ کی موجودہ صورتحال: بقا کی جنگ
غزہ کے شہری اب صرف دو محاذوں پر جنگ لڑ رہے ہیں: ایک طرف اسرائیلی بمباری ہے اور دوسری طرف بھوک و افلاس۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ انہیں اپنے گھروں سے نکل کر ساحل کی طرف پناہ لینی پڑی ہے، مگر وہاں بھی نہ پانی ہے، نہ خوراک اور نہ ہی طبی سہولتیں۔
زیتون اور شجاعیہ کے رہائشیوں کا کہنا ہے کہ اسرائیلی بمباری اتنی شدید ہے کہ رات بھر زمین ہلتی رہتی ہے۔ لوگ خوف اور دہشت میں زندہ رہنے کے لیے دعائیں کرتے ہیں، مگر ہر دن درجنوں لاشیں اور سینکڑوں زخمی ان کے حوصلے کو توڑ دیتے ہیں۔

تاریخی پس منظر: اسرائیلی بمباری اور غزہ کی تباہی
غزہ پٹی پچھلی کئی دہائیوں سے اسرائیلی جارحیت کا شکار ہے۔ سنہ 2008، 2014، اور پھر حالیہ برسوں میں کئی مرتبہ اسرائیلی بمباری نے غزہ کو کھنڈر میں بدل دیا۔ موجودہ حملے ان سب سے زیادہ شدید اور طویل ہیں۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اسرائیل کا مقصد غزہ کو مکمل طور پر غیر محفوظ بنا دینا ہے تاکہ فلسطینی عوام ہجرت پر مجبور ہو جائیں۔
انسانی حقوق کی پامالی اور اسرائیلی بمباری کے اثرات
اسرائیلی بمباری نہ صرف انسانی جانوں کا ضیاع ہے بلکہ یہ انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزی بھی ہے۔ بچوں کو تعلیم سے محروم کیا جا رہا ہے، عورتیں بے سہارا ہو گئی ہیں، اور مردوں کو روزگار کے مواقع کھو دینے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ عالمی ادارہ برائے خوراک کے مطابق غزہ کے 80 فیصد لوگ بھوک کے خطرے سے دوچار ہیں۔
عالمی میڈیا اور اسرائیلی بیانیہ
دلچسپ امر یہ ہے کہ بعض مغربی میڈیا چینلز اسرائیلی بیانیہ کو تقویت دیتے ہیں اور بمباری کو “دفاعی کارروائی” قرار دیتے ہیں۔ مگر آزاد ذرائع، خاص طور پر الجزیرہ، بی بی سی عربی اور انسانی حقوق کے مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ کھلی جارحیت ہے جس کا ہدف عام شہری ہیں۔
مستقبل کے خدشات
غزہ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر اسرائیلی بمباری اور ناکہ بندی نہ رکی تو آنے والے دنوں میں بھوک اور وبائی امراض سے مزید ہزاروں لوگ مر سکتے ہیں۔ بچوں میں غذائی قلت کے باعث بیماریوں میں اضافہ ہو رہا ہے اور ماں باپ اپنے بچوں کو بچانے میں بے بس ہیں۔
اسرائیلی بمباری نے غزہ کو ایک زندہ قبرستان میں بدل دیا ہے۔ ہر روز درجنوں لاشیں، تباہ شدہ مکانات اور بھوک سے مرنے والے بچے عالمی برادری کے لیے ایک سوالیہ نشان ہیں۔ اقوام متحدہ اور بڑی طاقتوں کو چاہیے کہ وہ فوری طور پر جنگ بندی کے لیے اقدامات کریں، ورنہ یہ انسانی بحران آنے والی نسلوں کو بھی متاثر کرے گا۔
غزہ پر اسرائیلی بمباری: امدادی مراکز پر حملے، 110 فلسطینی شہید، انسانی بحران سنگین