ترکی اور اسرائیل تعلقات ختم: انقرہ کا اسرائیلی طیاروں پر پابندی اور تجارتی بائیکاٹ کا اعلان
ترکی اور اسرائیل تعلقات ختم: انقرہ کا سخت موقف سامنے آ گیا
حالیہ دنوں میں مشرق وسطیٰ کی صورتحال ایک نیا رخ اختیار کر چکی ہے، اور اس کے مرکزی کرداروں میں سے ایک — ترکی — نے ایک انتہائی فیصلہ کن قدم اٹھا لیا ہے۔ ترک وزیر خارجہ حکان فیدان نے اعلان کیا ہے کہ ترکی اور اسرائیل تعلقات ختم کر دیے گئے ہیں، اور انقرہ نے اسرائیل کے ساتھ تمام معاشی و تجارتی روابط منقطع کر دیے ہیں۔
فضائی حدود کی بندش اور سفارتی کشیدگی
اس فیصلے کے تحت ترکی نے اسرائیلی طیاروں کے لیے اپنی فضائی حدود بھی بند کرنے کا اعلان کیا ہے۔ حکان فیدان کے مطابق، یہ اقدام غزہ میں جاری اسرائیلی جارحیت، شہری ہلاکتوں اور انسانی المیے کے تناظر میں کیا گیا ہے۔ ترک حکومت کا موقف ہے کہ اسرائیل کی موجودہ پالیسیاں ناقابل قبول ہیں اور ان کے خلاف عالمی سطح پر سنجیدہ ردعمل ناگزیر ہو چکا ہے۔
یہ اعلان ایسے وقت پر سامنے آیا ہے جب اسرائیل نے غزہ میں حملوں میں شدت پیدا کر دی ہے، جس کے نتیجے میں ہزاروں فلسطینی شہید اور لاکھوں بے گھر ہو چکے ہیں۔
اقوام متحدہ میں عالمی سطح کا اقدام
ترک وزیر خارجہ نے مزید انکشاف کیا کہ ترکی نے اقوام متحدہ میں ایک بڑا بین الاقوامی اقدام بھی شروع کیا ہے۔ اس اقدام میں 52 ممالک نے شرکت کی ہے، جس کا مقصد اسرائیل کو ہتھیاروں اور گولہ بارود کی فراہمی روکنے کے لیے عالمی دباؤ بڑھانا ہے۔
بیان کے مطابق:
"یہ ہتھیار وہ ایندھن ہیں جو اسرائیل کی جنگی مشین کو چلائے رکھتے ہیں، اور ہمیں اسے روکنا ہوگا۔”
یہ قدم ترکی کے اس مؤقف کی عکاسی کرتا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں پائیدار امن صرف اسی وقت ممکن ہے جب فلسطینی عوام کے بنیادی حقوق کو تسلیم کیا جائے اور ان پر مظالم بند ہوں۔
ترکی کی عسکری تیاریوں میں تیزی
اس سے قبل مختلف عالمی خبر رساں اداروں نے رپورٹ کیا کہ ترکی اور اسرائیل تعلقات ختم ہونے کے اعلان سے پہلے ہی ترکی نے ایران-اسرائیل کشیدگی کے پس منظر میں اپنی دفاعی تیاریوں میں اضافہ کر دیا تھا۔ ترکی نے اپنی سرحدوں پر سیکورٹی سخت کر دی ہے اور جنگی تیاریوں میں تیزی لائی گئی ہے۔
ترک وزارت دفاع کے ذرائع کے مطابق:
- ملک بھر میں مربوط فضائی دفاعی نظام کو اپ گریڈ کیا جا رہا ہے
- مقامی ساختہ ریڈار اور جدید ہتھیاروں سے دفاعی نظام کو مضبوط کیا جا رہا ہے
- ترک جنگی طیارے سرحدی فضاؤں پر کڑی نگرانی کر رہے ہیں
- اسرائیلی فضائی خلاف ورزیوں پر فوری ردعمل دینے کے لیے ہائی الرٹ جاری ہے
یہ اقدامات اس بات کا ثبوت ہیں کہ ترکی اب صرف سفارتی سطح پر ہی نہیں، بلکہ عسکری سطح پر بھی کسی بھی غیر متوقع صورتحال سے نمٹنے کے لیے تیار ہے۔
امیگریشن کے حوالے سے ترکی کا موقف
ذرائع کا کہنا ہے کہ فی الحال ترکی کی جانب کسی "بڑے پیمانے پر امیگریشن لہر” کے آثار نظر نہیں آ رہے، تاہم انقرہ پہلے ہی لاکھوں پناہ گزینوں کی میزبانی کر رہا ہے جن میں اکثریت شام سے تعلق رکھتی ہے۔
ترکی کی حکومت نے واضح کیا ہے کہ اس وقت مزید مہاجرین کی گنجائش موجود نہیں، اور موجودہ وسائل پہلے سے موجود پناہ گزینوں کی ضروریات پوری کرنے میں ہی مصروف ہیں۔
ترکی کا واضح پیغام: مظلوموں کے ساتھ، ظالموں کے خلاف
ترکی اور اسرائیل تعلقات ختم کرنے کا اعلان نہ صرف ایک سفارتی اقدام ہے بلکہ ایک اصولی مؤقف بھی ہے۔ ترکی دنیا کو یہ پیغام دے رہا ہے کہ اگر کوئی ملک انسانی حقوق، عالمی قوانین، اور اخلاقی اصولوں کو پامال کرے گا تو اسے عالمی سطح پر تنہا کیا جائے گا۔
حکان فیدان کا بیان عالمی برادری کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لیے کافی ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ وقت آ گیا ہے کہ دنیا اسرائیل کی جارحیت پر خاموشی توڑ دے اور فلسطینی عوام کے ساتھ یکجہتی دکھائے۔
خطے میں نئی صف بندیاں
ترکی کا فیصلہ محض ایک ملک کا ردعمل نہیں، بلکہ ایک بڑی سفارتی تبدیلی کی علامت ہے۔ اگر دیگر مسلم اور غیر مسلم ممالک بھی اسی طرح کے اقدامات اٹھاتے ہیں، تو ممکن ہے کہ اسرائیل پر دباؤ بڑھے اور وہ اپنی پالیسیوں پر نظرثانی پر مجبور ہو جائے۔
ترکی اور اسرائیل تعلقات ختم کرنے کے بعد، دنیا اب یہ دیکھ رہی ہے کہ کیا باقی ممالک بھی انسانیت اور انصاف کا ساتھ دینے کے لیے کھڑے ہوں گے، یا خاموشی کو ہی محفوظ راستہ سمجھیں گے۔
