جھنگ میں سیلاب 2025 – این ڈی ایم اے اور پاک آرمی کی شاندار کارروائی
نیشنل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کی شاندار کارروائی: جھنگ میں 25 سے 30 دیہات محفوظ، 119 دیہات متاثر
پاکستان حالیہ دنوں شدید بارشوں اور دریاؤں میں طغیانی کے باعث بڑے پیمانے پر سیلابی صورتحال کا سامنا کر رہا ہے۔ پنجاب کے ضلع جھنگ میں دریائے چناب اور دیگر ندی نالوں میں پانی کی سطح خطرناک حد تک بلند ہونے کے باعث ہزاروں افراد کی زندگیاں خطرے میں تھیں۔ ایسے میں نیشنل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) اور پاک فوج نے ایک فیصلہ کن اور بروقت آپریشن کے ذریعے بڑے انسانی المیے کو ٹال دیا۔
جھنگ میں پانی کی سطح اور خطرات
این ڈی ایم اے کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق جھنگ کے علاقے سے 4 لاکھ 96 ہزار کیوسک پانی گزر رہا تھا۔ اگر اس پانی کو قابو نہ کیا جاتا تو نہ صرف جھنگ شہر بلکہ اس کے نواحی دیہات بھی تباہی کی لپیٹ میں آ جاتے۔ صورتحال کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے فوری ایکشن پلان تیار کیا گیا تاکہ سیلابی ریلے کا رخ موڑ کر زیادہ سے زیادہ دیہات اور شہری آبادی کو بچایا جا سکے۔
دھماکا خیز مواد کے ذریعے پانی کا رخ موڑنے کا فیصلہ
این ڈی ایم اے نے اعلان کیا کہ جھنگ چنڈ پل ریلوے ایمبنکمنٹ کے تین اہم سیکشنز کو بلاسٹنگ کے ذریعے توڑنے کا فیصلہ کیا گیا۔ یہ فیصلہ ایک مشکل مگر ناگزیر قدم تھا کیونکہ اگر پانی کو قدرتی راستہ نہ دیا جاتا تو جھنگ کے کئی علاقوں میں جانی اور مالی نقصان بڑھ سکتا تھا۔
پاک فوج کے انجینئرنگ و بلاسٹنگ یونٹ نے یہ ذمہ داری سنبھالی۔ فوجی ٹیموں نے دھماکا خیز مواد استعمال کرتے ہوئے یہ کام انتہائی مہارت اور شاندار حکمت عملی کے ساتھ انجام دیا۔
بلاسٹنگ کا عمل اور وقت وار تفصیل
این ڈی ایم اے نے بتایا کہ تینوں سیکشنز کو کامیابی سے توڑا گیا۔
پہلا سیکشن دوپہر 1:20 بجے بلاسٹ کیا گیا۔
دوسرا سیکشن شام 3:42 بجے دھماکے سے کھولا گیا۔
تیسرا سیکشن شام 4:19 بجے توڑا گیا۔
ان بلاسٹنگ آپریشنز کے ذریعے تقریباً ایک سے ڈیڑھ لاکھ کیوسک پانی کا رخ موڑ دیا گیا، جس کے نتیجے میں 25 سے 30 دیہاتوں کو براہ راست خطرے سے بچا لیا گیا۔
متاثرہ دیہات اور آبادی کی منتقلی
دوسری جانب ڈپٹی کمشنر جھنگ کے مطابق سیلابی ریلے کی وجہ سے اب بھی 119 دیہات زیر آب آ گئے ہیں۔ ان دیہاتوں میں کھڑی فصلیں، مکانات اور مویشی بری طرح متاثر ہوئے۔ انتظامیہ نے فوری طور پر ریلیف آپریشن شروع کیا اور اب تک 2 لاکھ 40 ہزار افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا جا چکا ہے۔
انسانی المیہ اور مشکلات
متاثرین کی بڑی تعداد نے سرکاری اسکولوں، امدادی کیمپوں اور دیگر محفوظ مقامات پر پناہ لی ہے۔ لوگوں کو خوراک، پانی اور ادویات کی اشد ضرورت ہے۔ خواتین اور بچوں کے لیے خصوصی طبی کیمپ قائم کیے گئے ہیں، جبکہ مویشیوں کے لیے علیحدہ پناہ گاہیں بھی بنائی جا رہی ہیں تاکہ دیہی معیشت کو مکمل طور پر تباہ ہونے سے بچایا جا سکے۔
پاک فوج اور ریسکیو اداروں کی شاندار خدمات
این ڈی ایم اے اور پاک فوج کے ساتھ ساتھ مقامی ریسکیو ادارے، پولیس اور رضاکار بھی امدادی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں۔ کشتیوں اور خصوصی گاڑیوں کے ذریعے متاثرہ افراد کو نکالا جا رہا ہے۔ کئی مقامات پر فوجی ہیلی کاپٹر بھی استعمال کیے گئے تاکہ دور افتادہ دیہات تک امداد پہنچائی جا سکے۔
معیشت پر ممکنہ اثرات
جھنگ اور اس کے گردونواح زرعی لحاظ سے نہایت اہم خطہ ہے۔ یہاں چاول، گنا، مکئی اور سبزیوں کی کاشت بڑے پیمانے پر کی جاتی ہے۔ سیلاب کے باعث کھڑی فصلوں کو شدید نقصان پہنچا ہے جس کا اثر نہ صرف مقامی کسانوں بلکہ ملکی معیشت پر بھی پڑے گا۔ ماہرین کے مطابق اگر پانی کا اخراج جلد ممکن نہ ہوا تو زرعی پیداوار میں کمی واقع ہوگی اور غذائی قلت کا خدشہ بھی بڑھ سکتا ہے۔
مستقبل کے خدشات اور حفاظتی اقدامات
ماہرین آبی وسائل نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگر بارشوں کا سلسلہ مزید جاری رہا تو دریائے چناب اور دیگر ندی نالوں میں پانی کی سطح مزید بلند ہو سکتی ہے۔ اس کے لیے حکومت اور این ڈی ایم اے نے مزید حفاظتی اقدامات اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے، جن میں:
متاثرہ علاقوں میں مزید حفاظتی بند تعمیر کرنا۔
مقامی لوگوں کو پہلے سے محفوظ مقامات پر منتقل کرنا۔
کسانوں کے لیے ریلیف پیکیجز اور قرضوں میں آسانیاں فراہم کرنا۔
صحت اور صفائی کے مسائل کے حل کے لیے ہنگامی اقدامات شامل ہیں۔
عوامی ردعمل اور حکومت سے توقعات
عوامی سطح پر این ڈی ایم اے اور پاک فوج کی اس بروقت کارروائی کو خوب سراہا جا رہا ہے۔ متاثرین کا کہنا ہے کہ اگر یہ اقدام بروقت نہ اٹھایا جاتا تو جانی نقصان کہیں زیادہ ہوتا۔ تاہم وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ حکومت صرف وقتی اقدامات پر نہ رکے بلکہ مستقل بنیادوں پر سیلابی آفات سے بچاؤ کی منصوبہ بندی کرے۔
جھنگ میں آنے والا یہ سیلاب ایک بڑا قدرتی چیلنج تھا، لیکن این ڈی ایم اے اور پاک فوج کی بروقت اور جرات مندانہ کارروائی کے باعث بڑے پیمانے پر انسانی جانیں اور دیہات محفوظ ہو گئے۔ اگرچہ 119 دیہات اب بھی متاثر ہیں اور لاکھوں افراد مشکلات کا شکار ہیں، لیکن یہ حقیقت ہے کہ بہتر حکمت عملی اور قربانی کے ذریعے ایک بڑے سانحے کو ٹال دیا گیا۔
پاکستان کو ضرورت ہے کہ مستقبل میں ایسی آفات کے لیے بہتر ڈیزاسٹر مینجمنٹ پالیسی مرتب کرے تاکہ آنے والے وقت میں عوام کو محفوظ بنایا جا سکے
