شوگر ملز کارٹلائزیشن پاکستان: 2010ء اور 2020ء میں گٹھ جوڑ کے شواہد، سی سی پی کی رپورٹ
کمپیٹیشن کمیشن آف پاکستان (سی سی پی) نے ایک بار پھر پاکستان کے شوگر سیکٹر میں گٹھ جوڑ (کارٹلائزیشن) کی تصدیق کر دی ہے۔ کمیشن کے مطابق 2010ء اور 2020ء میں شوگر ملز ایسوسی ایشن اور ملوں کے درمیان کارٹلائزیشن کے واضح شواہد ملے تھے، جبکہ اس وقت بھی مزید تحقیقات جاری ہیں۔
یہ انکشاف قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے تجارت کی ذیلی کمیٹی کے اجلاس میں کیا گیا، جو چینی کی قیمتوں، برآمد اور درآمد سے متعلق معاملات کا جائزہ لے رہی ہے۔
ذیلی کمیٹی کا اجلاس: اہم نکات
قومی اسمبلی کی ذیلی کمیٹی برائے تجارت کا اجلاس معروف بزنس مین اور رکن کمیٹی مرزا اختیار بیگ کی زیر صدارت منعقد ہوا۔ اجلاس میں وزارت فوڈ سیکیورٹی، ایف بی آر، ایس ای سی پی اور سی سی پی کے نمائندے شریک ہوئے۔
کمیٹی کے اہم سوالات
کمیٹی نے اجلاس کے دوران مختلف اہم نکات پر سوالات اٹھائے، جن میں شامل تھے:
چینی کی برآمد کا فیصلہ کن بنیادوں پر کیوں اور کس ڈیٹا کے تحت کیا گیا؟
غیر رجسٹرڈ کمپنیوں کو برآمد کی اجازت کیوں دی گئی؟
کیا چینی کی درآمد اور مقامی قیمتوں کے فرق کی وجہ سے ٹیکس مراعات دی گئیں؟
شوگر ملز میں ایک ہی خاندان کے افراد کا غلبہ کیوں ہے؟
شوگر ملز کارٹلائزیشن کے شواہد
سی سی پی حکام نے بتایا کہ:
2010ء میں کی گئی پہلی انکوائری میں شوگر ملز ایسوسی ایشن کے اندر گٹھ جوڑ کے شواہد ملے۔
2020ء میں دوبارہ تحقیقات کے دوران بھی یہی صورتحال سامنے آئی، جس میں قیمتوں کے تعین اور مصنوعی قلت پیدا کرنے کے شواہد شامل تھے۔
2021ء میں شوگر ملز ایسوسی ایشن اور مختلف ملوں پر 44 ارب روپے کا جرمانہ عائد کیا گیا، تاہم اس فیصلے کو مختلف فورمز پر چیلنج کیا گیا ہے اور قانونی کارروائیاں جاری ہیں۔
ایس ای سی پی کا مؤقف
سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) نے اجلاس کو آگاہ کیا کہ:
ملک بھر کی 81 شوگر ملز کے شیئر ہولڈرز کا مکمل ڈیٹا کمیٹی کو فراہم کر دیا گیا ہے۔
بعض ملز میں ایک ہی خاندان کے افراد کی اجارہ داری کے شواہد ملے ہیں، جو شفافیت کے لیے چیلنج ہے۔
چینی کی قیمت اور درآمدات کا مسئلہ
وزارت فوڈ سیکیورٹی کی رپورٹ
وزارت فوڈ سیکیورٹی کے حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ:
گزشتہ 10 سالوں میں سے 7 سال تک پاکستان میں چینی کی قیمت عالمی مارکیٹ سے زیادہ رہی۔
درآمدی چینی کے نرخ مقامی مارکیٹ کے مقابلے میں کم ہونے کے باوجود ٹیکسز اور دیگر اخراجات کی وجہ سے صارفین کو ریلیف نہیں ملا۔
ٹیکس مراعات کا انکشاف
رکن کمیٹی حامد عتیق نے بتایا کہ:
درآمدی چینی پر کسٹمز ڈیوٹی، سیلز ٹیکس، ویلیو ایڈیڈ ٹیکس اور انکم ٹیکس میں 50 فیصد تک کمی کی گئی تھی۔
یہ ٹیکس رعایت صرف حکومتی درآمدات کے لیے دی گئی تھی، جس کا فائدہ عام صارفین تک نہیں پہنچ سکا۔
ڈی ریگولیشن کا معاملہ
وزیراعظم کی ہدایت پر شوگر سیکٹر کی ڈی ریگولیشن کے لیے ایک کمیٹی قائم کی گئی ہے جس کی سربراہی وزیر پاور اویس لغاری کر رہے ہیں۔
مرزا اختیار بیگ نے ہدایت دی کہ آئندہ اجلاس میں کمیٹی کو اس پیشرفت سے تفصیلی بریفنگ دی جائے۔
پاکستان میں شوگر ملز کارٹلائزیشن کی وجوہات
ماہرین کے مطابق پاکستان میں شوگر سیکٹر میں کارٹلائزیشن کے بنیادی اسباب درج ذیل ہیں:
- محدود اور مخصوص ملکانہ ڈھانچہ
شوگر انڈسٹری چند بڑے گروپس کے زیر کنٹرول ہے، جس سے مارکیٹ میں اجارہ داری قائم ہوتی ہے۔
- حکومتی پالیسیوں کا فائدہ
حکومتی سبسڈی، برآمدی اجازت نامے اور ٹیکس مراعات اکثر بڑے گروپس کو فائدہ پہنچاتے ہیں، عام صارفین کو نہیں۔
- شفافیت کی کمی
چینی کی پیداوار، اسٹاک اور فروخت کے درست اعداد و شمار کی عدم دستیابی سے مصنوعی قلت پیدا کی جاتی ہے۔
- کمزور ریگولیشن
قانونی ادارے جیسے سی سی پی اور ایس ای سی پی اگرچہ تحقیقات کرتے ہیں، مگر سیاسی دباؤ اور قانونی پیچیدگیوں کی وجہ سے فیصلوں پر عمل درآمد مشکل ہو جاتا ہے۔
ماہرین کی آراء
معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ شوگر سیکٹر میں کارٹلائزیشن کا براہ راست اثر عام آدمی پر پڑتا ہے کیونکہ:
چینی کی قیمت میں غیر معمولی اضافہ ہوتا ہے۔
صارفین کو درآمدی رعایت کا فائدہ نہیں ملتا۔
حکومت کو بھی سبسڈی کی مد میں بھاری نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے۔
عوام پر اثرات
شوگر ملز کارٹلائزیشن پاکستان کے باعث عوام پر درج ذیل اثرات مرتب ہو رہے ہیں:
چینی کی قیمت میں غیر معمولی اضافہ
مہنگائی میں اضافہ اورشوگر ملز کارٹلائزیشن پاکستان قوت خرید میں کمی
حکومتی محصولات پر دباؤ
ذخیرہ اندوزی اور بلیک مارکیٹنگ میں اضافہ
ممکنہ حل اور تجاویز
ماہرین کے مطابق اس مسئلے کے حل کے لیے درج ذیل اقدامات کیے جا سکتے ہیں:
- سخت ریگولیشن اور نگرانی
سی سی پی اور ایس ای سی پی کو مزید اختیارات دے کر شوگر سیکٹر کی شفاف نگرانی کی جائے۔
- ڈیجیٹل ٹریکنگ سسٹم
چینی کی پیداوار، اسٹاک اور فروخت کے لیے جدید ڈیجیٹل سسٹم متعارف کرایا جائے تاکہ ذخیرہ اندوزی روکی جا سکے۔
- مسابقت کو فروغ دینا
چھوٹے اور نئے سرمایہ کاروں کو صنعت میں داخل ہونے کی ترغیب دی جائے تاکہ چند بڑے گروپس کی اجارہ داری ختم ہو سکے۔
- عوامی ریلیف اسکیمز
حکومت کو چاہیے کہ درآمدی چینی پر ملنے والے ٹیکس فوائد کا براہ راست اثر عوام تک پہنچائے۔
چینی بحران شدید: پشاور میں 50 کلو چینی بوری 8,900 روپے پر فروخت ہونے لگی
شوگر ملز کارٹلائزیشن پاکستان میں ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے، جو معیشت اور عوام دونوں پر منفی اثر ڈال رہا ہے۔ سی سی پی کی شوگر ملز کارٹلائزیشن پاکستان 2010ء اور 2020ء کی انکوائریوں اور 2021ء میں 44 ارب روپے کے جرمانے کے باوجود عملی اصلاحات نہ ہونے سے یہ گٹھ جوڑ ختم نہیں ہو سکا۔