پاکستان ریلوے میں بوگیوں کی کمی، مسافروں کے لیے بڑا درد سر
پاکستان میں ٹرین کا سفر ہمیشہ سے عوام کے لیے ایک سہولت سمجھا جاتا رہا ہے، مگر موجودہ صورتحال نے اس سہولت کو ایک بڑے مسئلے میں بدل دیا ہے۔ حالیہ دنوں میں پاکستان ریلوے میں بوگیوں کی کمی ایک سنگین مسئلہ بن چکی ہے جس نے ہزاروں مسافروں کو مشکلات میں ڈال دیا ہے۔ ٹکٹ لینے کے باوجود مسافروں کو ریلوے اسٹیشن پر جا کر پتا چلتا ہے کہ انہیں اپنی منتخب کردہ ٹرین کے بجائے دوسری ٹرین میں ایڈجسٹ کیا جائے گا۔ یہ صورتحال نہ صرف مسافروں کے لیے شدید پریشانی کا باعث ہے بلکہ ریلوے کے نظام کی کمزوریوں کو بھی بے نقاب کر رہی ہے۔
پاکستان ریلوے میں بوگیوں کی کمی اور مسافروں کی مشکلات
ایکسپریس نیوز کی رپورٹ کے مطابق پچھلے دو ماہ سے ہزاروں مسافروں کو اس مسئلے کا سامنا ہے۔ مسافروں کو ٹکٹ پاک بزنس ایکسپریس، شاہ حسین ایکسپریس یا قراقرم ایکسپریس کا دیا جاتا ہے لیکن ریلوے انتظامیہ انہیں مجبوراً دوسری ٹرینوں میں ایڈجسٹ کر دیتی ہے۔ پاکستان ریلوے میں بوگیوں کی کمی کی وجہ سے مسافروں کو کئی کئی گھنٹے ریلوے اسٹیشن پر انتظار کرنا پڑتا ہے اور بعض اوقات چلتی گاڑی میں سوار ہونا پڑتا ہے۔
لاہور ڈویژن میں 100 سے زائد بوگیوں کی کمی
ریلوے ذرائع کے مطابق صرف لاہور ڈویژن میں 100 سے زائد بوگیوں کی کمی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آئے روز مختلف ٹرینوں کے مسافروں کو دوسری ٹرینوں میں ایڈجسٹ کر کے روانہ کیا جاتا ہے۔ پاکستان ریلوے میں بوگیوں کی کمی کے باعث پاک بزنس ایکسپریس، شالیمار ایکسپریس، شاہ حسین ایکسپریس، کراچی ایکسپریس اور خیبر میل جیسی اہم ٹرینوں کی آمد و رفت میں تاخیر معمول بن چکی ہے۔
سیلاب نے مسئلہ اور بڑھا دیا
ریلوے انتظامیہ کا کہنا ہے کہ حالیہ سیلاب نے صورتحال کو مزید خراب کر دیا ہے۔ کئی ٹرینیں تاخیر کا شکار ہوئیں اور کچھ کو مکمل طور پر منسوخ کرنا پڑا۔ ان منسوخ شدہ ٹرینوں کے مسافروں کو فوری طور پر دوسری ٹرینوں میں ایڈجسٹ کیا گیا، مگر اس سے بھی مسئلے میں کمی نہیں آئی بلکہ مسافروں کی مشکلات میں اضافہ ہوا۔ یوں پاکستان ریلوے میں بوگیوں کی کمی ایک قومی مسئلہ بنتی جا رہی ہے۔
مسافروں کی شکایات اور تکالیف
مسافر عدیل اکبر، کامران ارشاد اور وسیم نے ایکسپریس نیوز سے گفتگو میں بتایا کہ انہوں نے پاک بزنس ایکسپریس کی ٹکٹ خریدی لیکن ریلوے انتظامیہ نے انہیں گرین لائن میں ایڈجسٹ کیا۔ اسی طرح قراقرم ایکسپریس کے بجائے پاک بزنس میں سفر کروایا گیا۔ دوسری ٹرینیں بھی 2 سے 3 گھنٹے تاخیر سے روانہ ہوئیں جس سے مسافروں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
ان کا کہنا تھا کہ اسٹیشن پر بیوی بچوں کے ساتھ انتظار کرنا آسان نہیں ہوتا۔ خاص طور پر بچوں کے ساتھ یہ صورتحال مزید مشکل بن جاتی ہے کیونکہ وہ بار بار کھانے پینے کی اشیاء مانگتے ہیں، اور اسٹیشن پر ان کی قیمتیں عام مارکیٹ سے کہیں زیادہ ہوتی ہیں۔ فیملی ہالز موجود ہیں لیکن کئی گھنٹے انتظار کرنا کسی کے لیے بھی آسان نہیں۔
پاکستان ریلوے میں بوگیوں کی کمی اور نظام کی کمزوریاں
یہ صورتحال ظاہر کرتی ہے کہ پاکستان ریلوے میں بوگیوں کی کمی صرف ایک وقتی مسئلہ نہیں بلکہ ایک دیرینہ خرابی ہے۔ ریلوے کے پاس نہ صرف بوگیوں کی تعداد ناکافی ہے بلکہ ان کی دیکھ بھال اور مرمت کے لیے بھی مناسب نظام موجود نہیں۔ پرانی بوگیاں خراب ہونے کے بعد اکثر لمبے عرصے تک ورکشاپس میں پڑی رہتی ہیں، جس سے ریلوے کے پاس فعال بوگیوں کی کمی بڑھتی جا رہی ہے۔
تاخیر کا مسافروں پر اثر
ٹرینوں کی تاخیر اور مسافروں کو دوسری ٹرینوں میں ایڈجسٹ کرنے کی پالیسی نے نہ صرف لوگوں کے قیمتی وقت کو ضائع کیا ہے بلکہ انہیں ذہنی دباؤ میں بھی مبتلا کر دیا ہے۔ کئی مسافر کاروباری یا خاندانی مقاصد کے لیے ٹرین سے سفر کرتے ہیں اور وقت پر منزل پر پہنچنا ان کے لیے ضروری ہوتا ہے۔ مگر پاکستان ریلوے میں بوگیوں کی کمی اور انتظامی کمزوریوں کے باعث وہ اپنے شیڈول کو پورا کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔
ریلوے انتظامیہ کی وضاحت
ریلوے انتظامیہ کا کہنا ہے کہ وہ پوری کوشش کر رہے ہیں کہ ٹرینیں وقت پر روانہ ہوں۔ سیلاب کی وجہ سے کچھ ٹرینیں تاخیر کا شکار ہوئیں جبکہ کچھ کو منسوخ کرنا پڑا۔ تاہم، منسوخ شدہ ٹرینوں کے مسافروں کو فوری طور پر دوسری ٹرینوں میں ایڈجسٹ کیا گیا۔ انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ وہ صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے اقدامات کر رہے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ جب تک پاکستان ریلوے میں بوگیوں کی کمی کا بنیادی مسئلہ حل نہیں ہوگا، تب تک یہ مسائل برقرار رہیں گے۔
عوامی اعتماد اور مستقبل کے چیلنجز
پاکستان ریلوے میں بوگیوں کی کمی نے عوام کا اعتماد بھی متاثر کیا ہے۔ جو لوگ ٹرین کے ذریعے آرام دہ اور سستا سفر چاہتے تھے اب وہ اس مسئلے کی وجہ سے یا تو نجی بسوں اور وینز کو ترجیح دے رہے ہیں یا پھر فضائی سفر کا انتخاب کر رہے ہیں۔ اگر ریلوے نے اس مسئلے کو جلد حل نہ کیا تو اس کے مسافروں کی تعداد میں مزید کمی آسکتی ہے۔
سیلاب سے ریلوے آپریشن میں بڑی تبدیلیاں، خانیوال-فیصل آباد سیکشن بند
مجموعی طور پر دیکھا جائے تو پاکستان ریلوے میں بوگیوں کی کمی نے ٹرین کے سفر کو عوام کے لیے مشکل بنا دیا ہے۔ مسافر طویل انتظار، ٹرینوں کی تاخیر اور دوسری ٹرینوں میں زبردستی ایڈجسٹ ہونے جیسے مسائل کا سامنا کر رہے ہیں۔ اگر حکومت اور ریلوے حکام نے فوری اقدامات نہ کیے تو یہ مسئلہ مستقبل میں مزید سنگین صورت اختیار کر سکتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ریلوے کے ڈھانچے میں بنیادی اصلاحات کی جائیں، نئی بوگیاں شامل کی جائیں اور پرانی بوگیوں کی مرمت کے لیے جدید نظام اپنایا جائے تاکہ عوام ایک بار پھر ٹرین کو ایک محفوظ اور قابل اعتماد ذریعہ سمجھ سکیں۔
