غیر اخلاقی ویڈیوز بنانے والے ٹک ٹاکرز گرفتار – مردان میں بڑی کارروائی
پاکستان میں سوشل میڈیا کا استعمال تیزی سے بڑھ رہا ہے اور اس کے مثبت پہلوؤں کے ساتھ ساتھ منفی اثرات بھی نمایاں ہو رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں مردان میں ہونے والی ایک بڑی کارروائی نے ایک بار پھر یہ ثابت کر دیا کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر غیر اخلاقی مواد اپ لوڈ کرنا نہ صرف معاشرتی اقدار کے خلاف ہے بلکہ یہ قانوناً بھی جرم ہے۔ رپورٹ کے مطابق غیر اخلاقی ویڈیوز بنانے والے ٹک ٹاکرز گرفتار کر لیے گئے ہیں، اور ان کے خلاف مزید تحقیقات جاری ہیں۔
کارروائی کی تفصیلات
وفاقی اداروں نے خیبرپختونخوا پولیس سے رابطہ کیا اور سوشل میڈیا پر پھیلتے غیر اخلاقی مواد کے خلاف مشترکہ کریک ڈاؤن شروع کیا۔ اسی سلسلے میں مردان میں کارروائی کرتے ہوئے غیر اخلاقی ویڈیوز بنانے والے ٹک ٹاکرز گرفتار کیے گئے۔ ذرائع کے مطابق ان ٹک ٹاکرز کے اکاؤنٹس پر ایسی ویڈیوز موجود تھیں جو نہ صرف معاشرتی اقدار کے خلاف تھیں بلکہ نوجوان نسل کے لیے بھی نقصان دہ ثابت ہو رہی تھیں۔
پولیس نے مختلف مقامات پر چھاپے مارے اور کم از کم پانچ افراد کو گرفتار کیا۔ ان کے موبائل فونز اور دیگر ریکارڈنگ ڈیوائسز بھی قبضے میں لے لی گئیں تاکہ مزید شواہد اکٹھے کیے جا سکیں۔
پشاور میں بھی گرفتاری
صرف مردان ہی نہیں بلکہ پشاور کے علاقے تھانہ چمکنی میں بھی کارروائی کی گئی جہاں پولیس نے ایسے ہی چند افراد کو گرفتار کیا جو ٹک ٹاک اور دیگر پلیٹ فارمز پر غیر اخلاقی ویڈیوز بنا کر اپ لوڈ کر رہے تھے۔ اس کارروائی نے ثابت کیا کہ حکومت اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اس معاملے کو سنجیدگی سے لے رہے ہیں۔
یہ گرفتاریاں ظاہر کرتی ہیں کہ غیر اخلاقی ویڈیوز بنانے والے ٹک ٹاکرز گرفتار ہونا اب وقت کی ضرورت بن گیا ہے کیونکہ یہ رجحان روز بروز بڑھتا جا رہا تھا اور اس پر قابو پانا ضروری تھا۔
سوشل میڈیا پر غیر اخلاقی مواد میں اضافہ
گزشتہ کچھ عرصے سے دیکھا گیا ہے کہ ٹک ٹاک، فیس بک اور انسٹاگرام جیسے پلیٹ فارمز پر غیر اخلاقی ویڈیوز کی بھرمار ہے۔ خاص طور پر ٹک ٹاک پر نوجوان لڑکے اور لڑکیاں فالوورز بڑھانے اور مشہور ہونے کے لیے ایسے مواد کا سہارا لیتے ہیں جو نہ صرف شرمناک بلکہ معاشرتی بگاڑ کا سبب بھی بنتا ہے۔
اسی بڑھتے ہوئے رجحان کو روکنے کے لیے پولیس اور وفاقی اداروں نے یہ مشترکہ کریک ڈاؤن شروع کیا ہے۔ اور اس کا پہلا بڑا قدم یہی تھا کہ غیر اخلاقی ویڈیوز بنانے والے ٹک ٹاکرز گرفتار کیے جائیں تاکہ دوسروں کے لیے عبرت کا نشان بن سکیں۔
عوامی ردِعمل
اس خبر کے بعد عوام کی جانب سے ملا جلا ردِعمل سامنے آیا ہے۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ ان اقدامات کی اشد ضرورت تھی کیونکہ نوجوان نسل سوشل میڈیا پر حد سے زیادہ آزاد ہو رہی تھی۔ جبکہ کچھ افراد کا یہ کہنا ہے کہ حکومت کو چاہیے کہ صرف گرفتاری کے بجائے سوشل میڈیا پر اخلاقی تربیت اور آگاہی مہم بھی چلائے تاکہ نوجوان مثبت سرگرمیوں کی طرف راغب ہوں۔
سوشل میڈیا پر بھی یہ خبر وائرل ہوگئی اور ہیش ٹیگ غیر اخلاقی ویڈیوز بنانے والے ٹک ٹاکرز گرفتار ٹرینڈ کرنے لگا۔
ماہرین کی رائے
سماجی ماہرین کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا کا استعمال اعتدال میں رہ کر کیا جائے تو یہ فائدہ مند ہے، لیکن جب اس کا غلط استعمال کیا جائے تو یہ معاشرتی بگاڑ کا سبب بن جاتا ہے۔ ان کے مطابق اس طرح کی گرفتاریوں سے وقتی طور پر مسئلہ حل ہو جائے گا لیکن اصل حل یہی ہے کہ والدین اپنے بچوں پر نظر رکھیں اور تعلیمی ادارے بھی کردار سازی پر زور دیں۔
قانونی پہلو
پاکستان کے سائبر کرائم قوانین کے مطابق سوشل میڈیا پر غیر اخلاقی مواد اپ لوڈ کرنا اور پھیلانا ایک سنگین جرم ہے۔ ایف آئی اے اور پولیس کو اس حوالے سے وسیع اختیارات حاصل ہیں۔ اگر ثابت ہو جائے کہ کوئی فرد جان بوجھ کر غیر اخلاقی ویڈیوز بنا کر اپ لوڈ کر رہا ہے تو اس کو قید اور جرمانے کی سزا دی جا سکتی ہے۔
اسی وجہ سے مردان میں ہونے والی اس کارروائی کو قانونی طور پر ایک درست اور بروقت قدم قرار دیا جا رہا ہے۔ غیر اخلاقی ویڈیوز بنانے والے ٹک ٹاکرز گرفتار ہونے سے یقینی طور پر دوسروں کو بھی وارننگ ملے گی کہ وہ ایسے کاموں سے باز رہیں۔
مستقبل کے اقدامات
یہ بات اب بالکل واضح ہے کہ حکومت اس مسئلے پر سختی سے قابو پانے کا عزم رکھتی ہے۔ ممکن ہے آنے والے دنوں میں مزید کارروائیاں ہوں اور مزید افراد قانون کی گرفت میں آئیں۔
ادھر ماہرین تعلیم اور علما بھی اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ سوشل میڈیا کے استعمال پر ایک مضبوط حکمت عملی بنائی جائے تاکہ نوجوان نسل کا وقت اور توانائی مثبت سرگرمیوں میں استعمال ہو سکے۔
ٹک ٹاک میسجنگ فیچرز: واٹس ایپ کے لیے نیا اور بڑا چیلنج
مردان اور پشاور میں ہونے والی یہ کارروائیاں ایک بڑا پیغام ہیں کہ سوشل میڈیا پر غیر اخلاقی سرگرمیوں کو کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا۔ غیر اخلاقی ویڈیوز بنانے والے ٹک ٹاکرز گرفتار ہونا دراصل ایک وارننگ ہے کہ اگر کوئی بھی شہری قانون کی خلاف ورزی کرے گا تو اسے سخت نتائج بھگتنا ہوں گے۔