بلوچستان کے ضلع خاران خانہ بدوشوں پر حملہ، چار افراد قتل اور چار اغوا
خاران خانہ بدوشوں پر حملہ: افسوسناک واقعہ
بلوچستان کے ضلع خاران میں ایک اندوہناک واقعہ پیش آیا جب نامعلوم مسلح افراد نے خانہ بدوشوں کے ایک کیمپ پر حملہ کر دیا۔ اس حملے میں تین بھائیوں سمیت چار افراد قتل جبکہ چار افراد کو اغوا کر لیا گیا۔ یہ خبر پورے علاقے میں خوف و ہراس کا باعث بنی اور ایک بار پھر یہ سوال اٹھایا کہ بلوچستان میں سیکیورٹی کی صورتحال کس قدر نازک ہے۔
خاران خانہ بدوشوں پر حملہ واقعے کی تفصیل
پولیس ذرائع کے مطابق یہ حملہ بدھ کی صبح ضلع خاران کے دور افتادہ پہاڑی علاقے خوکاب میں ہوا۔ یہ علاقہ تحصیل پتکن کے قریب ہے اور خاران شہر سے تقریباً 70 کلومیٹر مشرق میں واقع ہے۔ خانہ بدوش خاندان وہاں خیموں میں رہائش پذیر تھے جب اچانک مسلح افراد نے دھاوا بولا۔ حملہ آوروں نے خیموں پر اندھا دھند فائرنگ کی جس کے نتیجے میں جنگی خان، صاحب خان، نصرت عرف اشرف ولد نیک محمد اور ان کے رشتہ دار ثنا اللہ پیری موقع پر ہی جاں بحق ہوگئے۔
اغوا ہونے والے افراد
خاران خانہ بدوشوں پر حملہ (Attack on Kharan nomads) صرف قتل تک محدود نہیں رہا بلکہ حملہ آوروں نے مقتول ثنا اللہ کے تین بھائیوں بہادر خان، نوکر خان اور احمد خان کے ساتھ ایک اور شخص صابر کو اغوا کر لیا۔ ان چاروں افراد کو نامعلوم مقام کی طرف لے جایا گیا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ اغوا کاروں کا مقصد فی الحال واضح نہیں ہے لیکن خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اس کے پیچھے قبائلی دشمنی یا دہشت گردوں کا ہاتھ ہو سکتا ہے۔
پولیس کو اطلاع تاخیر سے کیوں ملی؟
خاران خانہ بدوشوں پر حملہ ہونے کے بعد ایک اہم سوال یہ اٹھا کہ پولیس کو اطلاع بروقت کیوں نہ مل سکی؟ پولیس حکام کے مطابق علاقے میں مواصلاتی نیٹ ورک کی سہولت دستیاب نہیں جس کی وجہ سے متاثرہ خاندان فوری اطلاع نہیں دے سکا۔ بعد ازاں پولیس نے اپنے ذرائع سے خبر ملنے پر موقع پر پہنچ کر تفتیش شروع کی۔
قبائلی تنازعات اور پس منظر
خاران خانہ بدوشوں پر حملہ کوئی انوکھا واقعہ نہیں ہے۔ بلوچستان میں مختلف قبائل کے درمیان عرصہ دراز سے تنازعات چلے آ رہے ہیں۔ ڈپٹی کمشنر خاران منیر احمد کے مطابق علاقے میں قبائلی دشمنی کے کئی معاملات موجود ہیں اور یہی وجہ ہے کہ بعض اوقات پرانی دشمنیاں ایسے خونی واقعات کی شکل اختیار کر لیتی ہیں۔ تاہم اس حملے کی اصل وجہ ابھی تک سامنے نہیں آئی۔
پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارروائی
ڈی ایس پی کے مطابق پولیس نے علاقے کو گھیرے میں لے لیا ہے اور حملہ آوروں کی تلاش شروع کر دی گئی ہے۔ سرچ آپریشن جاری ہے اور مختلف پہلوؤں پر تحقیقات کی جا رہی ہیں۔ پولیس کا کہنا ہے کہ اس واقعے کو صرف ایک قبائلی تنازعہ سمجھنا قبل از وقت ہوگا، کیونکہ اس میں دہشت گردی کے عناصر کو بھی رد نہیں کیا جا سکتا۔
خاران میں سیکیورٹی خدشات
یہ واقعہ بلوچستان میں سیکیورٹی کی سنگین صورتحال کی عکاسی کرتا ہے۔ خاران اور اس کے گرد و نواح میں پہلے بھی متعدد بار دہشت گردانہ اور قبائلی نوعیت کے واقعات ہو چکے ہیں۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ حکومت کو ایسے علاقوں میں مزید سیکیورٹی بڑھانے کی ضرورت ہے تاکہ عام شہریوں، خاص طور پر خانہ بدوش خاندانوں کو تحفظ فراہم کیا جا سکے۔
متاثرہ خاندان کا دکھ
خاران خانہ بدوشوں پر حملہ متاثرہ خاندان کے لیے ناقابلِ برداشت سانحہ ہے۔ ایک ہی وقت میں تین بھائیوں کا قتل اور مزید چار عزیزوں کا اغوا پورے قبیلے کو صدمے میں مبتلا کر گیا ہے۔ خاندان نے کسی کو ذمہ دار نامزد کرنے سے گریز کیا ہے، شاید اس کی وجہ علاقے میں طاقتور گروپوں کا خوف ہے۔
بلوچستان میں خانہ بدوش قبائل کی زندگی
بلوچستان کے دور دراز علاقوں میں خانہ بدوش قبائل خیموں میں رہائش اختیار کرتے ہیں اور مال مویشی پالتے ہیں۔ یہ لوگ اکثر غیر محفوظ ہوتے ہیں کیونکہ وہ دور افتادہ علاقوں میں رہتے ہیں جہاں پولیس یا سیکیورٹی فورسز کی موجودگی محدود ہوتی ہے۔ خاران خانہ بدوشوں پر حملہ اسی کمزور سیکیورٹی کا ایک نتیجہ ہے۔
نتیجہ اور سوالیہ نشان
یہ افسوسناک واقعہ کئی سوالات کو جنم دیتا ہے:
- بلوچستان میں سیکیورٹی کو مزید مضبوط کیوں نہیں کیا جا رہا؟
- خانہ بدوش قبائل جیسے کمزور طبقات کے تحفظ کے لیے حکومت کے پاس کیا حکمت عملی ہے؟
- اغوا ہونے والے افراد کی بازیابی کے لیے کتنی مؤثر کارروائی کی جا رہی ہے؟
خاران خانہ بدوشوں پر حملہ صرف ایک مقامی واقعہ نہیں بلکہ پورے صوبے کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔ اگر بروقت اقدامات نہ کیے گئے تو ایسے واقعات مستقبل میں مزید بڑھ سکتے ہیں۔
بلوچستان اور کے پی دہشتگرد حملوں میں بیرونی ہاتھ ملوث ہونے کے ثبوت ہیں: وزیراعظم
