آڈٹ رپورٹ میں کسٹمز بے ضابطگیاں اور ٹیکس چوری کا بڑا انکشاف
پاکستان میں ریونیو کے سب سے بڑے ذرائع میں کسٹمز ادارے کا شمار ہوتا ہے، تاہم حالیہ آڈٹ رپورٹ نے چونکا دینے والے حقائق بے نقاب کیے ہیں۔ کسٹمز بے ضابطگیاں اور ٹیکس چوری کے کیسز نے ملک کو صرف تین ماہ میں 100 ارب روپے کے نقصان سے دوچار کیا۔
کسٹمز بے ضابطگیوں کی تفصیلات
آڈٹ رپورٹ کے مطابق فیس لیس کسٹمز اسسمنٹ سسٹم میں شدید خامیاں پائی گئیں۔ 13 ہزار 140 گڈز ڈیکلیئریشنز میں سے 2 ہزار 530 میں سنگین کسٹمز بے ضابطگیاں سامنے آئیں۔ ان بے ضابطگیوں کے باعث قومی خزانے کو اربوں روپے کا نقصان اٹھانا پڑا۔
ٹیکس چوری کے کیسز
رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ 1524 ڈیکلیئریشنز میں ٹیکس اور ڈیوٹی چوری کی گئی جس کی مالیت 5 ارب روپے سے زائد ہے۔ یہ ٹیکس چوری کسٹمز بے ضابطگیوں کا واضح ثبوت ہے اور نظام میں موجود خامیوں کو اجاگر کرتی ہے۔

ممنوعہ اشیا کی کلیئرنس
آڈٹ رپورٹ کے مطابق 10 ارب 54 کروڑ روپے مالیت کی ممنوعہ اشیا غیر قانونی طور پر کلیئر کی گئیں۔ اس کے علاوہ 30 ارب روپے سے زائد کے جرمانے عائد نہ کیے جانے سے قومی ریونیو کو مزید نقصان ہوا۔ یہ عمل کسٹمز بے ضابطگیوں کو مزید سنگین بناتا ہے۔
بوگس امپورٹرز اور جعلی ڈیکلیئریشنز
رپورٹ میں بتایا گیا کہ بوگس امپورٹرز کے ذریعے 54 سولر پینل کنٹینرز غیر قانونی طور پر کلیئر کیے گئے۔ حیرت انگیز طور پر کروڑوں روپے مالیت کی لینڈ کروزر صرف 17 ہزار 635 روپے میں کلیئر کی گئی۔ یہ حقائق ظاہر کرتے ہیں کہ کسٹمز بے ضابطگیاں اور منظم کرپشن ایک بڑے نیٹ ورک کی شکل اختیار کر چکی ہیں۔
گرین چینل کا خطرناک استعمال
آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی رپورٹ کے مطابق گرین چینل کا بڑھتا استعمال اب خود خطرے کا باعث بن چکا ہے۔ پری کلیئرنس کنٹرولز محدود ہو گئے ہیں، جس کے نتیجے میں کسٹمز بے ضابطگیوں اور ٹیکس چوری کے امکانات کئی گنا بڑھ گئے ہیں۔
قومی معیشت پر اثرات
کسٹمز بے ضابطگیاں نہ صرف قومی خزانے کے لیے نقصان دہ ہیں بلکہ ملکی معیشت کی ساکھ کو بھی متاثر کر رہی ہیں۔ 100 ارب روپے کا نقصان ترقیاتی منصوبوں، عوامی سہولتوں اور ریونیو بیس کو براہِ راست متاثر کرتا ہے۔
اصلاحات کی ضرورت
ماہرین کے مطابق کسٹمز نظام میں فوری اصلاحات ناگزیر ہیں۔ جدید ٹیکنالوجی کا استعمال، شفاف آڈٹ سسٹم اور سخت نگرانی کے بغیر کسٹمز بے ضابطگیوں کو ختم کرنا ممکن نہیں۔
یہ آڈٹ رپورٹ واضح پیغام دیتی ہے کہ اگر کسٹمز بے ضابطگیوں اور ٹیکس چوری پر قابو نہ پایا گیا تو قومی معیشت مزید نقصان کا شکار ہو سکتی ہے۔ اس مسئلے پر ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنا ناگزیر ہے۔
آئی ایم ایف مذاکرات میں ایف بی آر کو 1100 ارب اکٹھا کرنے کا چیلنج درپیش









