سامعہ حجاب کا بیان: ڈیل کے سوال پر خاموشی ٹوٹی
ٹک ٹاکر سامعہ حجاب کیس: معافی، عدالت، اور عوامی ردعمل — ایک مکمل داستان
اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت میں ٹک ٹاکر اور سوشل میڈیا انفلوئنسر سامعہ حجاب اور ملزم حسن زاہد کے درمیان ایک متنازع کیس کے خاتمے نے ایک بار پھر سوشل میڈیا، عدالتوں اور عوامی حلقوں میں شدید بحث چھیڑ دی ہے۔ سامعہ کی طرف سے "اللّٰہ کی رضا” کے لیے ملزم کو معاف کیے جانے کے بیان کے بعد جہاں کچھ لوگوں نے اس فیصلے کو سراہا، وہیں ایک بڑا طبقہ ایسا بھی ہے جو اس فیصلے پر سوالات اٹھا رہا ہے۔
کیس کا پس منظر
چند ماہ قبل سوشل میڈیا پر سامعہ حجاب کے اغوا، ہراسانی اور دھمکیوں سے متعلق خبریں گردش کر رہی تھیں۔ سامعہ کی جانب سے ملزم حسن زاہد کے خلاف باضابطہ شکایت درج کروائی گئی جس کے بعد کیس ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد میں زیرِ سماعت رہا۔
ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج عامر ضیاء کی عدالت میں کیس کی سماعت ہوئی، جہاں تفتیشی افسر محمد اسحاق نے عدالت کو آگاہ کیا کہ متاثرہ سامعہ حجاب نے ملزم کو معاف کر دیا ہے۔ عدالت نے اس بیان کی تصدیق کے لیے مدعیہ یا ان کے اہلِ خانہ کو ذاتی طور پر پیش ہونے کا کہا۔
سامعہ حجاب کا عدالت میں بیان
عدالتی وقفے کے بعد سامعہ حجاب خود عدالت میں پیش ہوئیں اور باقاعدہ طور پر ملزم حسن زاہد کو معاف کرنے کا بیان ریکارڈ کروایا۔ جج نے استفسار کیا کہ کیا واقعی صلح ہو چکی ہے اور کیا وہ کیس کی مزید پیروی کرنا چاہتی ہیں، جس پر سامعہ کا کہنا تھا:
"جی، ہمارا معاملہ طے ہوگیا ہے، میں اب کیس واپس لے رہی ہوں، مجھے ملزم کی ضمانت یا بریت پر کوئی اعتراض نہیں۔”
عدالت نے اس بیان کی بنیاد پر ملزم حسن زاہد کی 20 ہزار روپے مچلکوں کے عوض ضمانت منظور کر لی۔
خاموشی، صحافیوں کے سوالات، اور سوشل میڈیا پر شور
عدالت سے باہر جب صحافیوں نے سامعہ سے سوالات کیے، خاص طور پر یہ کہ "کتنے کروڑ میں ڈیل ہوئی ہے؟” تو سامعہ نے کوئی جواب دیے بغیر خاموشی سے عدالت چھوڑ دی۔ یہی خاموشی مزید چہ مگوئیوں کا سبب بنی۔
کچھ گھنٹوں بعد سوشل میڈیا پر سامعہ نے ایک ویڈیو پیغام جاری کیا، جس میں انہوں نے وضاحت کی کہ انہوں نے کوئی مالی ڈیل نہیں کی بلکہ:
"لوگ سوال کر رہے ہیں کہ میں نے کتنے پیسوں میں معاف کیا؟ میں نے اللّٰہ کی رضا کے لیے معاف کیا ہے۔”
انہوں نے مزید کہا:
"حسن کے والدین میرے گھر آئے، معافی مانگی، اور روتے ہوئے التجا کی، تب میں نے فیصلہ کیا کہ میں معاف کر دوں گی۔”
عوامی ردعمل: دو مختلف نظریے
یہ معاملہ جیسے ہی عوام کے علم میں آیا، سوشل میڈیا دو حصوں میں تقسیم ہو گیا:
حمایت کرنے والا طبقہ:
سامعہ کے فیصلے کو اسلامی تعلیمات سے جوڑا جا رہا ہے۔
کہا جا رہا ہے کہ کسی کے والدین کی منت سماجت پر معاف کرنا اخلاقی اور انسانی فیصلہ ہے۔
کچھ لوگوں کا کہنا تھا کہ لڑائی جھگڑے ختم ہونے چاہئیں اور صلح کو ترجیح دی جانی چاہیے۔
تنقید کرنے والا طبقہ:
معاف کرنے کو "ڈیل” قرار دیا گیا۔
کہا گیا کہ سوشل میڈیا پر شہرت حاصل کرنے کے بعد سامعہ نے خود ہی اپنے مقدمے کو مذاق بنایا۔
بعض نے کہا کہ اس معافی نے خواتین کے حقوق اور تحفظ کی جدوجہد کو نقصان پہنچایا ہے۔
سامعہ کی وضاحت: تنقید کرنے والے 25 فیصد لوگ
اپنی ویڈیو میں سامعہ نے اعتراف کیا کہ:
"75 فیصد لوگ میرے ساتھ ہیں، لیکن 25 فیصد ایسے ہیں جو صرف منفی باتیں کر رہے ہیں، جنہیں کسی کی عزت یا نیت سے کوئی غرض نہیں۔”
انہوں نے اپنی خاموشی کی وجہ یہ بتائی کہ وہ اس وقت ذہنی دباؤ میں تھیں اور عدالت میں موجود حالات بہت نازک تھے، اس لیے میڈیا کے سوالات کا جواب نہیں دے سکیں۔
قانونی ماہرین کا مؤقف
قانونی ماہرین کے مطابق سامعہ کا بیان عدالت میں ریکارڈ ہونے کے بعد ملزم کی ضمانت یا بریت میں کوئی رکاوٹ باقی نہیں رہتی۔ پاکستان کے فوجداری قانون کے مطابق اگر مدعیہ معاف کر دے، تو عدالت اسے تسلیم کرتی ہے، خاص طور پر اگر کیس میں جان لیوا حملے یا ریپ جیسے الزامات شامل نہ ہوں۔
ایک وکیل کا کہنا تھا:
"یہ کیس اخلاقی طور پر بحث کا سبب بن سکتا ہے، لیکن قانونی طور پر اگر صلح ہو جائے، تو عدالت کو اسے تسلیم کرنا پڑتا ہے۔”
سازش یا مصلحت؟ سچ کیا ہے؟
سوشل میڈیا پر بعض افراد کا کہنا ہے کہ سامعہ نے یہ کیس صرف شہرت کے لیے اُٹھایا، اور پھر جیسے ہی مالی یا سماجی دباؤ آیا، کیس واپس لے لیا۔ دوسری جانب کچھ حلقوں کا کہنا ہے کہ شاید ملزم کے اثر و رسوخ یا کسی بااثر شخصیت کی مداخلت کے باعث یہ صلح عمل میں آئی۔
اس حوالے سے فی الحال کوئی ٹھوس ثبوت سامنے نہیں آیا، مگر شکوک و شبہات کی فضا موجود ہے۔
سوشل میڈیا انفلوئنسرز کی ذمہ داری
اس واقعے نے ایک بار پھر سوشل میڈیا انفلوئنسرز کی سماجی ذمہ داری پر سوال کھڑے کر دیے ہیں۔ اگر مشہور شخصیات اپنے مسائل عوامی سطح پر لاتی ہیں، تو انہیں ان کے حل یا تبدیلی کے عمل کو بھی شفاف انداز میں مکمل کرنا چاہیے۔
عوامی اعتماد اس وقت مجروح ہوتا ہے جب کوئی مسئلہ سوشل میڈیا پر وائرل ہو اور پھر خاموشی سے ختم کر دیا جائے۔
یہ صرف ایک کیس نہیں
سامعہ حجاب کا معاملہ صرف ایک خاتون یا ایک ملزم کے درمیان تنازع نہیں بلکہ یہ پورے معاشرے، قانونی نظام، اور سوشل میڈیا کی طاقت و اثرات کی عکاسی کرتا ہے۔ ایسے کیسز نہ صرف انصاف کے تقاضوں کو چیلنج کرتے ہیں بلکہ یہ بھی طے کرتے ہیں کہ معاشرے میں طاقتور اور مشہور افراد کو کتنا اثر و رسوخ حاصل ہے۔