فیس لیس کسٹمز سسٹم پر چیئرمین ایف بی آر کا بڑا بیان
پاکستان کسٹمز کا فیس لیس سسٹم: حقائق، چیلنجز اور چیئرمین ایف بی آر کا مؤقف
تمہید
حالیہ دنوں میں پاکستان کی فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے ملک کے کسٹمز نظام کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے لیے "فیس لیس سسٹم” متعارف کرایا ہے، جس کا بنیادی مقصد شفافیت، کرپشن کے خاتمے اور کسٹمز کلیئرنس کے عمل کو خودکار بنانا ہے۔ چیئرمین ایف بی آر راشد محمود لنگڑیال نے اسلام آباد میں ایک اہم پریس کانفرنس کے دوران فیس لیس سسٹم سے متعلق حالیہ تنقید، پوسٹ کلیئرنس آڈٹ رپورٹ اور گاڑیوں کے اسکینڈل پر اپنی تفصیلی پوزیشن واضح کی۔
فیس لیس سسٹم: ایک انقلابی اقدام
چیئرمین ایف بی آر کے مطابق، فیس لیس کسٹمز سسٹم کو کامیابی سے نافذ کیا گیا ہے، اور یہ مؤثر طریقے سے کام کر رہا ہے۔ اس نظام کا بنیادی مقصد کسٹمز کلیئرنس کے عمل میں انسانی مداخلت کو کم سے کم کر کے کرپشن، جانبداری اور اختیارات کے ناجائز استعمال کا خاتمہ کرنا ہے۔ فیس لیس سسٹم کے تحت درآمد کنندگان اور کسٹمز افسران کے درمیان براہِ راست رابطہ ختم کر دیا گیا ہے، اور سارا عمل خودکار نظام کے تحت مکمل ہوتا ہے۔
چیئرمین کے مطابق اس نظام کے اطلاق کے بعد محصولات میں واضح اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ فیس لیس سسٹم ملکی معیشت کے لیے سود مند ثابت ہو رہا ہے۔
پوسٹ کلیئرنس آڈٹ رپورٹ: حقیقت یا پروپیگنڈہ؟
حالیہ دنوں میں فیس لیس سسٹم سے متعلق ایک "پوسٹ کلیئرنس آڈٹ رپورٹ” میڈیا پر لیک کی گئی جس میں الزام عائد کیا گیا کہ اس نظام کے تحت 17 ہزار گاڑیوں کی کلیئرنس میں بے ضابطگیاں پائی گئی ہیں۔ چیئرمین ایف بی آر راشد محمود لنگڑیال نے اس رپورٹ کو یکسر مسترد کرتے ہوئے اسے "غیرحقیقی” اور "من گھڑت” قرار دیا۔
ان کے مطابق یہ رپورٹ ایف بی آر کی ریویو کے بغیر میڈیا کو لیک کی گئی، جس کا مقصد عوام اور میڈیا کو گمراہ کرنا اور فیس لیس سسٹم کی ساکھ کو نقصان پہنچانا تھا۔ انہوں نے واضح کیا کہ اس رپورٹ میں شامل بہت سے الزامات زمینی حقائق پر مبنی نہیں ہیں اور اس کے پیچھے وہ عناصر ہیں جو فیس لیس سسٹم کو ناکام بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
گاڑیوں کا اسکینڈل اور فوری کارروائی
چیئرمین ایف بی آر نے پریس کانفرنس کے دوران اعتراف کیا کہ گاڑیوں کی کلیئرنس کے عمل میں کچھ بدعنوان عناصر ملوث تھے۔ اس حوالے سے ایک سنگین اسکینڈل منظرِ عام پر آیا ہے جس میں جعلی شناختی کارڈز (فیک آئی ڈیز) کے ذریعے گاڑیوں کی کلیئرنس کی گئی۔ انہوں نے بتایا کہ اس اسکینڈل میں ملوث سات افراد کو گرفتار کیا گیا ہے جبکہ ایک ایڈیشنل کلکٹر اور دو اسسٹنٹ کلکٹرز کو معطل کر دیا گیا ہے۔
یہ کارروائیاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ ایف بی آر فیس لیس سسٹم کو ہر صورت کامیاب بنانے کے لیے بدعنوان عناصر کے خلاف بلاامتیاز کارروائی کر رہا ہے۔
انکوائری کمیٹی کا قیام
چیئرمین ایف بی آر نے مزید بتایا کہ فیس لیس سسٹم اور پوسٹ کلیئرنس آڈٹ رپورٹ سے متعلق تمام معاملات کی جامع تحقیقات کے لیے ایک اعلیٰ سطحی انکوائری کمیٹی قائم کر دی گئی ہے۔ یہ کمیٹی جلد اپنی رپورٹ پیش کرے گی جس کی روشنی میں مزید قانونی و محکمانہ اقدامات کیے جائیں گے۔
ان کے مطابق جو اہلکار یا افسران اس نظام میں کسی بھی قسم کی بدعنوانی یا غفلت کے مرتکب پائے جائیں گے، ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔
- فیس لیس سسٹم کے فوائد
- فیس لیس سسٹم کے نفاذ سے نہ صرف کرپشن میں کمی آئی ہے بلکہ:
- کسٹمز کلیئرنس کا عمل تیز تر ہو گیا ہے۔
- تجارت پیشہ افراد کو آسانیاں میسر آئی ہیں۔
- شکایات کی شرح میں کمی واقع ہوئی ہے۔
- اداروں کی کارکردگی بہتر ہوئی ہے۔
ٹیکنالوجی کے استعمال سے عالمی معیار کے مطابق اصلاحات متعارف ہو رہی ہیں۔
چیئرمین ایف بی آر کا کہنا تھا کہ اس نظام کے خلاف پروپیگنڈا دراصل ان عناصر کا ردعمل ہے جو پرانے نظام میں اپنی ذاتی مفادات کا تحفظ چاہتے تھے۔

چیلنجز اور مستقبل کا لائحہ عمل
بلاشبہ فیس لیس سسٹم ایک مثبت پیش رفت ہے لیکن اس نظام کو مکمل کامیاب بنانے کے لیے کئی چیلنجز بھی درپیش ہیں جن میں شامل ہیں:
- ٹیکنالوجی کی مکمل اپ گریڈیشن
- عملے کی تربیت
- ڈیجیٹل سکیورٹی کے موثر اقدامات
- قوانین میں اصلاحات
ایف بی آر کی قیادت نے عزم ظاہر کیا ہے کہ ان تمام چیلنجز پر قابو پانے کے لیے مربوط حکمت عملی تیار کی جا رہی ہے۔
پاکستان کسٹمز میں فیس لیس سسٹم کا نفاذ بلاشبہ ایک انقلابی قدم ہے جو شفافیت، احتساب اور خودکار نظام کے ذریعے بدعنوانی کے خلاف مضبوط ہتھیار بن چکا ہے۔ اگرچہ اس نظام کو ناکام بنانے کی کوششیں جاری ہیں، لیکن ایف بی آر کی موجودہ قیادت، خصوصاً چیئرمین راشد محمود لنگڑیال کی قیادت میں، اس سسٹم کو محفوظ اور مؤثر بنانے کے لیے عملی اقدامات کر رہی ہے۔
پوسٹ کلیئرنس آڈٹ رپورٹ کو میڈیا میں پیش کرنا اور اس پر منفی پروپیگنڈا کرنا قابل مذمت ہے۔ تاہم، ایف بی آر کی جانب سے فوری تحقیقات، ملوث افراد کے خلاف کارروائی، اور انکوائری کمیٹی کا قیام اس بات کی گواہی ہے کہ ادارہ خود احتسابی کے اصولوں پر عمل پیرا ہے۔
اگر فیس لیس سسٹم کو مکمل دیانتداری اور شفافیت کے ساتھ جاری رکھا گیا تو یہ پاکستان میں گڈ گورننس اور اقتصادی ترقی کی ایک شاندار مثال بن سکتا ہے
Comments 1