یورپی کمیشن اسرائیل پر پابندیاں: تجارتی مراعات ختم، وزرا پر قدغن کی تجویز
یورپی کمیشن اسرائیل پر پابندیاں: انسانی حقوق کی پامالی پر سخت مؤقف
یورپی کمیشن نے اسرائیل کے خلاف ایک بڑی پیش رفت کرتے ہوئے تجارتی مراعات کی معطلی اور انتہاپسند وزیروں پر پابندیوں کی سفارش کی ہے۔ یہ اقدام اس وقت سامنے آیا ہے جب غزہ میں اسرائیلی حملوں نے انسانی المیے کو جنم دیا ہے اور عالمی برادری کی جانب سے مذمت کا سلسلہ جاری ہے۔
اسرائیلی اقدامات یورپی معاہدوں کی خلاف ورزی
یورپی کمیشن کی سربراہ کاجا کالاس نے اس بات پر زور دیا ہے کہ اسرائیل کی حالیہ کارروائیاں یورپی یونین اور اسرائیل کے درمیان ہونے والے ایسوسی ایشن معاہدے کے آرٹیکل 2 کی کھلی خلاف ورزی ہیں۔
یہ آرٹیکل انسانی حقوق اور جمہوری اقدار کے احترام کو معاہدے کی بنیاد قرار دیتا ہے، اور موجودہ حالات میں اسرائیل اس بنیادی شرط کو پامال کر رہا ہے۔
یورپی کمیشن اسرائیل پر پابندیاں کیوں لگانا چاہتا ہے؟
کاجا کالاس نے رکن ممالک پر زور دیا ہے کہ:
- اسرائیل کو حاصل تجارتی مراعات فوری معطل کی جائیں۔
- انتہاپسند اسرائیلی وزرا ایتمار بن گویر اور بیتزالیل سموتریچ پر پابندیاں عائد کی جائیں۔
- اسرائیلی مصنوعات پر اضافی محصولات لگائے جائیں، خصوصاً ان مصنوعات پر جو مقبوضہ علاقوں میں تیار ہوتی ہیں۔
غزہ میں انسانی بحران اور نسل کشی کی عالمی رپورٹ
یورپی کمیشن اسرائیل پر پابندیاں عائد کرنے کی تجویز ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب اقوامِ متحدہ کی ایک تازہ رپورٹ میں غزہ میں اسرائیلی کارروائیوں کو "نسل کشی” قرار دیا گیا ہے۔
اس رپورٹ نے عالمی ضمیر کو جھنجھوڑ دیا ہے، خاص طور پر یورپ بھر میں جاری مظاہروں کے پس منظر میں جہاں ہزاروں افراد اسرائیلی جارحیت کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔
یورپی کمیشن کی صدر کا دو ٹوک پیغام
کمیشن کی صدر اورسلا فان ڈیر لاین نے بھی سخت الفاظ میں اسرائیل کی کارروائیوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ:
"ہم فوری جنگ بندی، انسانی امداد کی بلا رکاوٹ رسائی اور تمام یرغمالیوں کی رہائی چاہتے ہیں۔”
انہوں نے کہا کہ اگر اسرائیل اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی نہیں کرتا تو دو طرفہ تعاون معطل کیا جائے گا۔
یورپی یونین میں رکن ممالک کا ردعمل
اگرچہ یورپی کمیشن اسرائیل پر پابندیاں عائد کرنے پر زور دے رہا ہے، لیکن تمام رکن ممالک اس پر متفق نہیں ہیں۔
- اسپین اور آئرلینڈ مکمل معاشی پابندیوں اور اسلحہ برآمدات کی روک تھام کے حق میں ہیں۔
- جبکہ جرمنی اور ہنگری نے ان اقدامات کی مخالفت کی ہے۔
یہ اختلافات یورپی یونین کے اندرونی فیصلوں کو پیچیدہ بنا رہے ہیں، لیکن یورپی کمیشن اسرائیل پر پابندیاں لگانے کے لیے دباؤ بڑھا رہا ہے۔
مغربی کنارے میں E1 بستی منصوبہ اور انسانی حقوق کی پامالی
یورپی کمیشن نے خاص طور پر E1 بستی منصوبہ کی منظوری کو انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا ہے، کیونکہ یہ منصوبہ فلسطینی علاقوں کو مزید تقسیم اور محدود کرنے کا باعث بنے گا۔
ساتھ ہی غزہ میں امدادی سامان کی ناکہ بندی اور شہریوں پر بے رحمانہ بمباری کو بھی یورپی کمیشن کی رپورٹ کا حصہ بنایا گیا ہے۔
عالمی سطح پر اسرائیل کے خلاف مزاحمت
یہ پہلا موقع نہیں کہ یورپی کمیشن اسرائیل پر پابندیاں لگانے پر غور کر رہا ہو، لیکن موجودہ حالات میں عالمی برادری کا دباؤ اور عوامی احتجاج اس مسئلے کو مزید سنجیدہ بنا رہا ہے۔
یورپی کمیشن کا اگلا لائحہ عمل
یورپی کمیشن اسرائیل پر پابندیاں عائد کرنے کے لیے اپنی تجویز کو رکن ممالک کے سامنے رکھے گا اور سفارتی ذرائع سے ان کو قائل کرنے کی کوشش کرے گا۔
اس وقت اسرائیل کے خلاف عوامی رائے اپنے عروج پر ہے، جس کا فائدہ کمیشن اٹھانے کی کوشش کر رہا ہے۔
کیا یورپی کمیشن اسرائیل پر پابندیاں نافذ کر پائے گا؟
یہ سوال اب یورپی یونین کی سیاسی ہم آہنگی پر منحصر ہے۔ اگر رکن ممالک اتفاق کر لیتے ہیں تو:
- اسرائیل کے لیے معاشی اور سفارتی دباؤ میں اضافہ ہوگا۔
- فلسطینیوں کے حقوق کی عالمی سطح پر حمایت بڑھے گی۔
- یورپی یونین خود کو انسانی حقوق کے محافظ کے طور پر مستحکم کرے گی۔
لیکن اگر اختلافات برقرار رہے تو یورپی کمیشن اسرائیل پر پابندیاں صرف تجویز تک محدود رہ جائیں گی۔
غزہ میں اسرائیلی حملے 33 فلسطینی شہید، عالمی مذمت میں اضافہ

Comments 1