انسداد دہشت گردی عدالت: 9 مئی کیسز میں پی ٹی آئی رہنماؤں کے نوٹس اشتہار جاری
9 مئی کے مقدمات: انسداد دہشت گردی عدالت کی کارروائی میں تیزی، پی ٹی آئی رہنماؤں کو نوٹس، مفرور قرار دیے جانے کا خدشہ
پاکستان کی سیاسی اور عدالتی تاریخ میں 9 مئی 2023 کا دن ایک اہم اور متنازع موڑ کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ اس دن ملک بھر میں پیش آنے والے پُرتشدد واقعات نے نہ صرف قانون نافذ کرنے والے اداروں کو چیلنج کیا بلکہ عدالتی نظام کو بھی ایک بڑی آزمائش سے دوچار کیا۔ ان ہی واقعات کے تسلسل میں انسداد دہشت گردی عدالت (ATC) راولپنڈی نے اہم پیش رفت کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے متعدد مرکزی رہنماؤں کے خلاف نوٹس اشتہار جاری کر دیے ہیں۔
عدالت کی کارروائی: 9 مئی کے 10 مقدمات میں پیش رفت
انسداد دہشت گردی عدالت راولپنڈی نے 9 مئی کے پُرتشدد مظاہروں کے سلسلے میں درج 10 مقدمات میں کارروائی کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے 14 مرکزی رہنماؤں کو نوٹس اشتہار جاری کیے ہیں۔ ان مقدمات کا اندراج راولپنڈی کے مختلف تھانوں — جن میں تھانہ سٹی، نیوٹاؤن، صادق آباد، وارث خان، سول لائنز، مورگاہ، کینٹ، آر اے بازار، ٹیکسلا اور صدر واہ شامل ہیں — میں کیا گیا تھا۔
نوٹس اشتہار جاری ہونے کی وجوہات
عدالت کی جانب سے یہ نوٹسز اس وقت جاری کیے گئے جب نامزد ملزمان نہ تو گرفتار کیے جا سکے اور نہ ہی عدالت میں سرنڈر کیا گیا۔ عدالت نے پہلے ہی ان افراد کے ناقابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے تھے، لیکن پولیس کی جانب سے ان پر عملدرآمد نہ ہونے کی وجہ سے اب انہیں اشتہاری قرار دینے کی کارروائی کا آغاز کیا جا رہا ہے۔
اشتہاری قرار دیے جانے کا عمل
قانونی طریقہ کار کے مطابق، اگر کوئی ملزم عدالتی وارنٹ کے باوجود گرفتاری سے بچتا رہے اور عدالت کے سامنے پیش نہ ہو، تو عدالت اسے نوٹس اشتہار کے ذریعے طلب کرتی ہے۔ اگر نوٹس کی مدت کے بعد بھی ملزم پیش نہ ہو تو اسے مفرور اور اشتہاری قرار دیا جاتا ہے، جس کے بعد اس کی جائیداد ضبطی، سفری پابندیاں، اور بینک اکاؤنٹس منجمد کرنے جیسے اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔
پی ٹی آئی کے مرکزی رہنما شامل
ان مقدمات میں جن پی ٹی آئی رہنماؤں کے خلاف نوٹس اشتہار جاری کیے گئے ہیں، ان میں پاکستان کی سیاست میں کئی نمایاں چہرے شامل ہیں:
- عمر ایوب (سابق وفاقی وزیر اور پی ٹی آئی کے سیکریٹری جنرل)
- شیخ راشد شفیق (سابق رکن قومی اسمبلی اور عوامی مسلم لیگ کے رہنما)
- زرتاج گل (سابق وزیر مملکت برائے ماحولیاتی تبدیلی)
- کنول شوزب (سابق رکن قومی اسمبلی)
- شبلی فراز (سابق وفاقی وزیر اطلاعات)
- رائے مرتضیٰ اور رائے حسن نواز
- محمد احمد چٹھہ
- چوہدری بلال اعجاز
یہ تمام رہنما پی ٹی آئی کے مختلف ادوار میں اعلیٰ حکومتی عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں اور پارٹی کے مرکزی دھارے کا حصہ رہے ہیں۔
عدالت کا حکم: رپورٹ 18 اکتوبر تک پیش کی جائے
انسداد دہشت گردی عدالت نے واضح طور پر حکم دیا ہے کہ تمام متعلقہ پولیس اسٹیشنز اور تحقیقاتی ادارے 18 اکتوبر 2025 تک رپورٹ پیش کریں کہ ملزمان کو نوٹس اشتہار کے ذریعے طلب کرنے کے بعد کیا پیش رفت ہوئی۔ اگر مقررہ تاریخ تک بھی ملزمان حاضر نہ ہوئے تو ان کے خلاف اشتہاری قرار دیے جانے کی قانونی کارروائی مکمل کر لی جائے گی۔
9 مئی کے واقعات: ایک پس منظر
یاد رہے کہ 9 مئی 2023 کو پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کی گرفتاری کے بعد پورے ملک میں احتجاجی مظاہرے پھوٹ پڑے تھے۔ ان مظاہروں کے دوران عسکری تنصیبات، سرکاری املاک، اور نجی اداروں کو نشانہ بنایا گیا۔ راولپنڈی، لاہور، پشاور، کراچی اور دیگر شہروں میں فوجی تنصیبات پر حملے ہوئے، جن میں جی ایچ کیو راولپنڈی کے گیٹ پر مظاہرین کا دھاوا بھی شامل ہے۔
اس دن کو پاکستان کی عسکری قیادت نے ’’سیاہ دن‘‘ قرار دیا اور ریاست نے اسے ایک سنگین بغاوت کی کوشش سے تعبیر کیا۔
مقدمات کی نوعیت
راولپنڈی کے جن تھانوں میں مقدمات درج ہوئے ہیں، ان میں دہشت گردی، اقدام قتل، اشتعال انگیزی، املاک کو نقصان پہنچانا، اور ریاستی اداروں پر حملے جیسے سنگین الزامات شامل ہیں۔ ان مقدمات کی تحقیقات انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کے تحت کی جا رہی ہے، جو انتہائی سخت سزائیں تجویز کرتا ہے۔
قانونی اور سیاسی اثرات
پی ٹی آئی پر دباؤ میں اضافہ
ان عدالتی کارروائیوں سے نہ صرف پی ٹی آئی کی سیاسی قیادت پر قانونی دباؤ میں اضافہ ہوا ہے بلکہ پارٹی کی تنظیمی سرگرمیاں بھی متاثر ہو رہی ہیں۔ متعدد مرکزی رہنما روپوش ہیں یا بیرون ملک جا چکے ہیں، جبکہ دیگر کو قانونی کارروائی کا سامنا ہے۔
آئندہ عام انتخابات پر اثرات
اگر ان رہنماؤں کو مفرور قرار دے دیا گیا اور وہ اپنی صفائی میں عدالت میں پیش نہ ہوئے تو یہ ان کی الیکشن میں شرکت کی اہلیت پر بھی سوالیہ نشان بن جائے گا۔ الیکشن کمیشن مفرور اور اشتہاری قرار دیے گئے افراد کو انتخابات میں حصہ لینے سے روک سکتا ہے۔
انسانی حقوق اور سیاسی انتقام کی بحث
تاہم، پی ٹی آئی اور اس کے حمایتی حلقے ان عدالتی کارروائیوں کو سیاسی انتقام سے تعبیر کرتے ہیں۔ ان کا مؤقف ہے کہ حکومت اور ریاستی ادارے پی ٹی آئی کو سیاسی میدان سے باہر نکالنے کے لیے عدالتوں کا استعمال کر رہے ہیں۔ دوسری جانب، حکومتی مؤقف ہے کہ قانون کے مطابق کارروائی کی جا رہی ہے اور کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں۔
عدالتی نظام کا کردار
یہ مقدمات پاکستان کے عدالتی نظام کے لیے بھی ایک کڑا امتحان ہیں۔ عدلیہ کو ان مقدمات میں غیر جانبداری، شفافیت، اور قانون کے مطابق فیصلے دینے کی ضرورت ہے تاکہ عوام کا اعتماد عدالتی نظام پر قائم رہے۔ اس قسم کے ہائی پروفائل مقدمات عدلیہ کی ساکھ، رفتار اور اثرپذیری کا براہ راست امتحان ہیں۔
آئندہ دنوں میں اہم پیش رفت متوقع
انسداد دہشت گردی عدالت راولپنڈی کی حالیہ کارروائیوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ریاست 9 مئی کے واقعات کو نظر انداز کرنے کے لیے تیار نہیں۔ ملزمان کے خلاف اشتہاری قرار دینے کی کارروائی، قانونی نظام کے تحت انصاف کی فراہمی کی طرف ایک قدم ہے۔
تاہم، ان کارروائیوں کے سیاسی، سماجی اور قانونی اثرات نہایت گہرے ہوں گے۔ 18 اکتوبر کو رپورٹ کی پیشی کے بعد امکان ہے کہ عدالت کئی رہنماؤں کو باقاعدہ مفرور قرار دے گی، جس کے بعد ان کی گرفتاری اور ممکنہ جائیداد ضبطی کے اقدامات شروع ہو سکتے ہیں۔
ملک کی سیاسی فضا پہلے ہی کشیدہ ہے، اور ایسے میں اس نوعیت کی عدالتی پیش رفت ایک نیا رخ اختیار کر سکتی ہے۔ قانون کی بالادستی کے لیے ضروری ہے کہ ہر فرد کو منصفانہ موقع دیا جائے، مگر ساتھ ہی یہ بھی یقینی بنایا جائے کہ انصاف میں تاخیر نہ ہو، کیونکہ ’’انصاف میں تاخیر، انصاف سے انکار‘‘ کے مترادف ہوتا ہے۔

