ہائی کورٹ کے 5 ججز کا اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کے اختیارات کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع
اسلام آباد ( رئیس الاخبار) :- اسلام آباد ہائی کورٹ کے پانچ سینئر ججوں نے چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کے اختیارات اور انتظامی اقدامات کو چیلنج کرتے ہوئے سپریم کورٹ آف پاکستان سے رجوع کر لیا ہے۔ یہ اقدام ملک کی عدالتی تاریخ میں ایک غیر معمولی اور اہم موڑ کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، کیونکہ پہلی بار ہائی کورٹ کے اندرونی انتظامی ڈھانچے اور اختیارات پر براہِ راست سوال اٹھایا گیا ہے۔
کون کون سے جج درخواست گزار ہیں؟
سپریم کورٹ میں درخواستیں دائر کرنے والے جج صاحبان میں:
جسٹس محسن اختر کیانی
جسٹس بابر ستار
جسٹس طارق محمود جہانگیری
جسٹس ثمن رفعت
جسٹس اعجاز اسحٰق خان
شامل ہیں۔ اب تک چار ججوں کی درخواستوں کی کاپیاں میڈیا کو موصول ہو چکی ہیں، جبکہ پانچویں کی تفصیلات بھی جلد سامنے آنے کی توقع ہے۔
بنیادی مطالبہ کیا ہے؟
ان تمام درخواستوں میں مشترکہ طور پر سپریم کورٹ سے استدعا کی گئی ہے کہ:
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کے انتظامی اختیارات کو عدالتی اختیارات پر غالب آنے سے روکا جائے۔
بینچوں کی تشکیل اور مقدمات کی منتقلی جیسے معاملات صرف قواعد اور تمام ججوں کی مشاورت سے طے ہوں۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اپنی مرضی سے ججوں کو فہرست سے خارج کرنے یا مقدمات منتقل کرنے کا اختیار استعمال نہ کریں۔

ماسٹر آف دی روسٹر کا معاملہ
درخواست گزاروں نے واضح مؤقف اختیار کیا کہ ’’ماسٹر آف دی روسٹر‘‘ کا اصول، جس کے تحت چیف جسٹس کو مکمل اختیار ہوتا ہے کہ وہ کس جج کو کون سا مقدمہ دیں، سپریم کورٹ کے فیصلوں میں کالعدم قرار دیا جا چکا ہے۔ اس لیے اس اصول کے تحت یکطرفہ فیصلے اب درست نہیں سمجھے جا سکتے۔
نوٹیفکیشنز اور کمیٹیوں پر اعتراض
درخواستوں میں کہا گیا ہے کہ:
3 فروری اور 15 جولائی کو جاری ہونے والے نوٹیفکیشنز کے ذریعے بنائی گئی انتظامی کمیٹیاں غیر قانونی اور بدنیتی پر مبنی ہیں۔
ان کمیٹیوں کے ذریعے اسلام آباد ہائی کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر رولز 2025 کی منظوری اور نوٹیفکیشن جاری کرنا آئین کے آرٹیکلز 192(1) اور 202 کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
ستمبر میں اس نوٹیفکیشن کی توثیق بھی ’’غیر مؤثر اور کالعدم‘‘ قرار دی جانی چاہیے۔
آئینی نکات پر زور
جج صاحبان نے اپنی درخواستوں میں کئی اہم آئینی نکات پر روشنی ڈالی، جن میں:
آرٹیکل 192(1): ہائی کورٹ کے ڈھانچے اور اختیارات کی وضاحت کرتا ہے۔
آرٹیکل 202: ہائی کورٹ کو اپنے رولز بنانے کا اختیار دیتا ہے، لیکن یہ تمام ججوں کی منظوری سے ہونا چاہیے۔
آرٹیکل 203: ہائی کورٹس کو ماتحت عدلیہ پر مؤثر نگرانی کا پابند کرتا ہے۔
آرٹیکل 199: ہائی کورٹ کو اپنے خلاف رٹ جاری کرنے کا اختیار نہیں دیتا۔
آرٹیکل 209: صرف سپریم جوڈیشل کونسل کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ جج کے طرزِ عمل یا صلاحیت پر سوال اٹھا سکے۔
ڈویژن بینچ کے اختیارات پر اعتراض
درخواست گزاروں نے کہا کہ ہائی کورٹ کا ڈویژن بینچ نہ تو سنگل بینچ کے عبوری فیصلوں پر اپیل سن سکتا ہے اور نہ ہی اسے کسی ماتحت عدالت کی طرح کنٹرول کر سکتا ہے۔ اس مؤقف کے ذریعے جج صاحبان نے عدالتی عمل کی آزادی اور خود مختاری پر زور دیا ہے۔
ایمان مزاری شکایت چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ، انکوائری کمیٹی متحرک
عدلیہ کے اندرونی ڈھانچے پر سوال
ان درخواستوں کے بعد یہ بحث شدت اختیار کر گئی ہے کہ:
کیا اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس یکطرفہ طور پر بینچ تشکیل دے سکتا ہے؟
یا یہ فیصلہ تمام ججوں کی مشاورت اور باقاعدہ قواعد کے ذریعے ہونا چاہیے؟
قانونی ماہرین کے مطابق یہ مقدمہ آئندہ عدلیہ کے اندرونی ڈھانچے اور ججز کے اختیارات کو ازسرِ نو متعین کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔
ممکنہ اثرات
یہ معاملہ نہ صرف اسلام آباد ہائی کورٹ بلکہ پورے عدالتی نظام پر گہرے اثرات مرتب کر سکتا ہے۔
اگر سپریم کورٹ ججوں کے مؤقف کے حق میں فیصلہ دیتی ہے تو اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کے اختیارات محدود ہو جائیں گے۔
دوسری طرف، اگر درخواستیں مسترد ہو جاتی ہیں تو اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کا اختیار مزید مضبوط تصور ہوگا۔

تجزیہ
قانونی اور سیاسی حلقے اس پیش رفت کو ’’پاکستان کی عدلیہ میں طاقت کے توازن کی جنگ‘‘ قرار دے رہے ہیں۔
ایک رائے یہ ہے کہ یہ اقدام عدلیہ میں جمہوری طرزِ عمل اور مشاورت کو فروغ دے گا۔
جبکہ دوسری رائے کے مطابق یہ عدلیہ کے اندرونی اختلافات کو مزید نمایاں کر کے ادارے کی ساکھ کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے پانچ ججوں کی سپریم کورٹ سے رجوع ایک غیر معمولی پیش رفت ہے جو عدلیہ کے اندر طاقت کے توازن، قواعد کی وضاحت اور اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس (high court chief justice)کے اختیارات کے دائرے کو ازسرِ نو متعین کرنے کا ذریعہ بن سکتی ہے۔ سپریم کورٹ کے آئندہ فیصلے کا اثر نہ صرف ہائی کورٹ بلکہ ملک کے پورے عدالتی نظام پر طویل المیعاد ہوگا۔
بریکنگ نیوز: جسٹس طارق محمود جہانگیری جوڈیشل ورک سے روکنے کا اسلام آباد ہائیکورٹ کے ڈویژن بنچ کا فیصلہ چیلنک کرنے سپریم کورٹ پہنچ گئے، جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس بابر ستار، جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان اور جسٹس ثمن رفعت امتیاز بھی ہمراہ ہیں pic.twitter.com/70gy8jYTnj
— Ehtsham Kiani (@ehtshamkiani) September 19, 2025
READ MORE FAQS
سوال 1: اسلام آباد ہائی کورٹ کے کون سے ججز نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا ہے؟
جواب: جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس بابر ستار، جسٹس طارق جہانگیری، جسٹس ثمن رفعت اور جسٹس اعجاز اسحٰق خان۔
سوال 2: ججز نے اپنی درخواست میں بنیادی مطالبہ کیا کیا ہے؟
جواب: چیف جسٹس کے انتظامی اختیارات کو محدود کر کے بینچوں کی تشکیل اور مقدمات کی منتقلی کو قواعد اور مشاورت سے طے کرنے کا مطالبہ۔
سوال 3: ’’ماسٹر آف دی روسٹر‘‘ کا اصول کیا ہے اور ججز نے کیوں مخالفت کی؟
جواب: یہ اصول چیف جسٹس کو مکمل اختیار دیتا ہے کہ کون سا مقدمہ کس جج کو دیا جائے، ججز نے مؤقف اپنایا کہ یہ یکطرفہ ہے اور اب ناقابل قبول ہے۔
سوال 4: اس معاملے کے ممکنہ اثرات کیا ہو سکتے ہیں؟
جواب: اگر سپریم کورٹ ججز کے حق میں فیصلہ دیتی ہے تو چیف جسٹس کے اختیارات محدود ہو جائیں گے، بصورت دیگر یہ مزید مضبوط تصور ہوں گے۔
Comments 1