بھارت پر حملے کی صورت میں سعودی عرب پاکستان کے ساتھ ہوگا، خواجہ آصف
حالیہ دنوں میں بین الاقوامی سیاست میں ایک نئی اور اہم پیش رفت دیکھنے کو ملی جب پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان ایک "اسٹریٹجک باہمی دفاعی معاہدے” پر دستخط ہوئے۔ اس معاہدے نے خطے میں دفاعی و جغرافیائی حکمت عملی کے منظرنامے کو ایک نیا رخ دیا ہے۔ وزیردفاع خواجہ آصف نے لندن میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اعلان کیا کہ اگر بھارت نے آئندہ پاکستان پر جارحیت کی کوشش کی تو سعودی عرب پاکستان کے ساتھ کھڑا ہوگا۔ یہ بیان محض الفاظ نہیں بلکہ ایک ایسے معاہدے کی نمائندگی کرتا ہے جو مستقبل میں جنوبی ایشیا اور مشرق وسطیٰ کی سکیورٹی پالیسی پر گہرے اثرات ڈال سکتا ہے۔
معاہدے کی نوعیت اور اہمیت
18 ستمبر 2025 کو وزیراعظم شہباز شریف کے دورہ سعودی عرب کے دوران ریاض میں یہ معاہدہ طے پایا۔ معاہدے کے تحت اگر کسی ایک ملک پر حملہ کیا جاتا ہے تو اسے دونوں ممالک پر حملہ تصور کیا جائے گا۔ اس کی بنیاد بالکل اس اصول پر ہے جس پر نیٹو (NATO) اتحاد کام کرتا ہے: "One for all, all for one”۔ یہ بات پہلی بار کسی اسلامی ملک کی جانب سے اتنی واضح انداز میں سامنے آئی ہے کہ مسلمان ممالک کو نیٹو طرز کے دفاعی اتحاد میں اکٹھا ہونا چاہیے۔
معاہدے کے مطابق دفاعی تعاون، مشترکہ تربیت، جدید ہتھیاروں کی خرید و فروخت، سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے درمیان انٹیلی جنس شیئرنگ، اور دہشت گردی کے خلاف مشترکہ اقدامات جیسے نکات شامل ہیں۔ اس کے علاوہ اس معاہدے میں معاشی تعاون کا بھی تذکرہ ہے، جس کے تحت سعودی عرب پاکستان کی معاشی ضروریات کو پورا کرنے میں مدد کرے گا، جبکہ پاکستان افرادی قوت اور دفاعی خدمات فراہم کرے گا۔
بھارت کے خلاف پیغام
خواجہ آصف کا بیان کہ "بھارت نے اگر آئندہ حملہ کیا تو سعودی عرب ہمارے ساتھ ہوگا”، ایک نہایت اہم سفارتی پیغام ہے۔ یہ پیغام بھارت کو یہ باور کراتا ہے کہ اب پاکستان تنہا نہیں ہے۔ سعودی عرب جیسا بااثر اور معاشی طور پر مضبوط ملک اس کے ساتھ کھڑا ہے۔ یہ بیان نہ صرف پاکستانی عوام کے لیے حوصلہ افزا ہے بلکہ بھارت کے لیے بھی ایک سخت سفارتی و دفاعی پیغام ہے کہ کسی بھی جارحیت کی صورت میں ردعمل صرف پاکستان کی جانب سے نہیں بلکہ ایک اسلامی اتحاد کی شکل میں آسکتا ہے۔
سعودی عرب کی اسٹریٹجک شفٹنگ
یہ معاہدہ سعودی عرب کی خارجہ پالیسی میں ایک بڑی تبدیلی کی نشاندہی کرتا ہے۔ سعودی عرب گزشتہ کئی دہائیوں سے مغربی ممالک خصوصاً امریکہ پر انحصار کرتا رہا ہے، لیکن اب وہ اپنی حکمت عملی کو تبدیل کرتے ہوئے مسلم ممالک کے ساتھ خودمختار دفاعی تعلقات قائم کر رہا ہے۔ خواجہ آصف کے مطابق سعودی عرب کا مغربی ممالک پر انحصار کم ہوگا اور جہاں پاکستان جیسے ممالک ان کی مدد کرسکیں گے، وہاں وہ بھی پاکستان کی اقتصادی بحالی میں کردار ادا کریں گے۔
یہ بھی غور طلب ہے کہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان "ویژن 2030” کے تحت اپنے ملک کو ایک جدید اور خودمختار ریاست بنانے کی کوشش کر رہے ہیں، اور اس میں پاکستان جیسے ممالک کا تعاون نہایت اہمیت رکھتا ہے۔
پاکستانی لیبر کی نئی راہیں
اس معاہدے کے ایک اور پہلو کی جانب بھی خواجہ آصف نے اشارہ کیا کہ ممکن ہے مزید پاکستانی لیبر سعودی عرب جائے۔ یہ بات پاکستان کے لیے ایک مثبت اقتصادی اشارہ ہے، کیونکہ سعودی عرب میں پہلے ہی لاکھوں پاکستانی محنت کش موجود ہیں اور ترسیلات زر پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اگر اس معاہدے کے تحت مزید پاکستانیوں کو روزگار کے مواقع ملتے ہیں تو اس کا براہ راست فائدہ پاکستان کی معیشت کو ہوگا۔
اسلامی دنیا کے لیے نیٹو جیسا اتحاد؟
خواجہ آصف نے ایک نہایت بصیرت افروز نکتہ اٹھایا کہ مسلم دنیا کو نیٹو جیسا اتحاد بنانا چاہیے۔ یہ خیال اگرچہ نیا نہیں ہے، مگر اس پر عملی اقدام کی نوبت شاذ و نادر ہی آتی ہے۔ یہ معاہدہ اس خواب کی طرف ایک پہلا عملی قدم ہو سکتا ہے۔ اگر سعودی عرب، پاکستان، ترکی، قطر، مصر، ایران اور دیگر مسلم ممالک ایک مشترکہ دفاعی پلیٹ فارم پر متفق ہو جائیں تو دنیا کی سب سے بڑی دفاعی طاقت بن سکتے ہیں۔ اس سے نہ صرف مسلمانوں کو خودمختاری حاصل ہوگی بلکہ دنیا میں امن و استحکام کی راہ بھی ہموار ہوگی۔
عالمی تناظر میں ممکنہ اثرات
یہ معاہدہ دنیا کی بڑی طاقتوں کے لیے ایک پیغام ہے کہ مسلم ممالک اب محض صارفین یا مغرب کے دفاعی انحصار پر مبنی ریاستیں نہیں رہیں بلکہ وہ اپنے فیصلے خود کرنے اور اپنے دفاع کو خود یقینی بنانے کے قابل ہو رہے ہیں۔ امریکہ، چین، روس، اور یورپی ممالک کے لیے یہ معاہدہ ایک اسٹریٹجک توازن کی نئی شکل پیدا کر سکتا ہے۔
ممکن ہے بھارت، اسرائیل اور کچھ مغربی طاقتیں اس معاہدے کو شک کی نگاہ سے دیکھیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ جب دو خودمختار ممالک باہمی دفاع کے لیے متحد ہوتے ہیں تو یہ کسی کے خلاف نہیں بلکہ اپنے حقِ دفاع کے لیے ہوتا ہے۔
ایک نیا دور، نئی امیدیں
پاکستان اور سعودی عرب کا اسٹریٹجک دفاعی معاہدہ ایک نئے دور کی شروعات ہے۔ یہ معاہدہ صرف دفاعی معاملات تک محدود نہیں بلکہ ایک گہرے معاشی، سفارتی اور سماجی تعلق کی بنیاد رکھتا ہے۔ اس کے اثرات صرف پاکستان اور سعودی عرب تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ پورے مسلم ورلڈ کو متاثر کریں گے۔
پاکستان کی دفاعی پالیسی، خارجہ تعلقات، اور خطے میں طاقت کا توازن اب ایک نئے رخ پر جا رہا ہے، اور اگر اس سمت میں مستقل مزاجی سے کام جاری رہا تو یہ شراکت داری عالمی سیاست میں ایک اہم مقام حاصل کر سکتی ہے۔
