لاہور دودھ اور دہی کی قیمتیں — عوام کے لیے نئی مشکل
لاہور میں مہنگائی کی نئی لہر نے ایک بار پھر شہریوں کی زندگی کو متاثر کیا ہے۔ روزمرہ استعمال کی بنیادی ضروریات میں شامل دودھ اور دہی کی قیمتوں میں نمایاں اضافہ کر دیا گیا ہے۔ نئے نرخوں کے مطابق، دودھ کی فی لیٹر قیمت 20 روپے بڑھا کر 220 روپے کر دی گئی ہے، جبکہ دہی کی فی کلو قیمت بھی 20 روپے اضافے کے بعد 260 روپے ہو گئی ہے۔ اس اضافے کے بعد "لاہور دودھ اور دہی کی قیمتیں” عام صارف کے لیے بڑی پریشانی کا باعث بن گئی ہیں۔
پہلے اور اب کی قیمتوں کا موازنہ
اس اضافے سے پہلے لاہور میں دودھ 200 روپے فی لیٹر اور دہی 240 روپے فی کلو فروخت ہو رہا تھا۔ لیکن اب دونوں کی قیمتوں میں بیک وقت اضافہ کر کے انہیں بالترتیب 220 اور 260 روپے کر دیا گیا ہے۔ اس حساب سے ہر گھرانے کے ماہانہ بجٹ پر براہ راست اثر پڑے گا، خاص طور پر ان گھرانوں پر جن کی روزمرہ خوراک دودھ اور دہی پر زیادہ منحصر ہے۔
"لاہور دودھ اور دہی کی قیمتیں” اب متوسط طبقے کے لیے ایسی سطح پر پہنچ چکی ہیں جہاں یہ بنیادی ضرورت ایک لگژری محسوس ہونے لگی ہے۔
قیمتوں میں اضافے کی وجوہات
چیئرمین ملک ایسوسی ایشن نے اس حالیہ اضافے کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ بارشوں اور سیلاب کے بعد جانوروں کے چارے کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ جب چارہ مہنگا ہوتا ہے تو براہ راست دودھ کی پیداواری لاگت بڑھتی ہے۔ ان کے مطابق، کسانوں کو اب جانوروں کی خوراک کے لیے پہلے کے مقابلے میں دوگنی قیمت ادا کرنی پڑ رہی ہے، اور یہی بوجھ بالآخر صارفین پر ڈالنا ناگزیر ہو گیا۔
یعنی "لاہور دودھ اور دہی کی قیمتیں” بڑھنے کی بنیادی وجہ جانوروں کی خوراک کی مہنگائی اور پیداوار میں مشکلات ہیں۔
صارفین کا ردعمل
شہریوں نے اس اضافے کو مسترد کر دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پہلے ہی مہنگائی نے جینا دوبھر کر رکھا ہے، اب "لاہور دودھ اور دہی کی قیمتیں” مزید بڑھنے سے ان کی مشکلات میں کئی گنا اضافہ ہو گیا ہے۔
ایک شہری نے کہا: "دودھ اور دہی جیسے بنیادی اجناس اب عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہو رہی ہیں۔”
ایک خاتون صارف نے شکوہ کیا: "بچوں کے لیے دودھ خریدنا مشکل ہو گیا ہے، حکومت کو فوری اقدامات کرنے چاہئیں۔”
یہ ردعمل ظاہر کرتا ہے کہ عوام میں بے چینی بڑھ رہی ہے اور وہ حکومت سے فوری ریلیف چاہتے ہیں۔
حکومت کی ذمہ داریاں
عوامی حلقے مطالبہ کر رہے ہیں کہ حکومت فوری طور پر ایسے اقدامات کرے جن سے نہ صرف "لاہور دودھ اور دہی کی قیمتیں” کنٹرول میں آئیں بلکہ کسانوں اور صارفین دونوں کو ریلیف دیا جا سکے۔
ممکنہ اقدامات میں شامل ہیں:
ذخیرہ اندوزی کے خلاف کریک ڈاؤن۔
منافع خوری کرنے والوں کی نگرانی۔
کسانوں کو سبسڈی فراہم کرنا تاکہ دودھ کی لاگت کم ہو۔
قیمتوں کے تعین کے عمل کو شفاف بنانا۔
اگر حکومت بروقت اقدامات نہ کرے تو خدشہ ہے کہ آنے والے دنوں میں "لاہور دودھ اور دہی کی قیمتیں” مزید بڑھ جائیں گی اور عام آدمی کے لیے یہ اشیاء مزید ناقابلِ برداشت ہو جائیں گی۔
دودھ اور دہی کی غذائی اہمیت
یہ بات سب جانتے ہیں کہ دودھ اور دہی ہر عمر کے افراد کے لیے غذائی اعتبار سے نہایت اہم ہیں۔ دودھ میں کیلشیم، وٹامن ڈی اور پروٹین موجود ہوتے ہیں جبکہ دہی نظامِ ہاضمہ بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ صحت مند طرزِ زندگی کے لیے ضروری ہے۔
جب "لاہور دودھ اور دہی کی قیمتیں” اس حد تک بڑھ جاتی ہیں کہ متوسط اور غریب طبقہ انہیں خریدنے سے قاصر ہو جائے، تو اس کا براہ راست اثر صحت پر پڑتا ہے۔ بچوں میں غذائی کمی، کمزور ہڈیاں اور بیماریوں کا خدشہ بڑھ جاتا ہے۔
کسانوں کی مشکلات
یہ مسئلہ صرف صارفین تک محدود نہیں بلکہ کسان بھی شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ جانوروں کی خوراک، ویکسین، اور دیکھ بھال پر بڑھتے اخراجات نے دودھ پیدا کرنے والوں کے لیے کاروبار کو نقصان دہ بنا دیا ہے۔ اگرچہ "لاہور دودھ اور دہی کی قیمتیں” بڑھنے سے بظاہر کسانوں کو فائدہ ہونا چاہیے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ بڑھتے اخراجات ان کے منافع کو بھی کھا جاتے ہیں۔
لہٰذا ایک متوازن پالیسی ناگزیر ہے جس میں کسانوں کو سستا چارہ اور سہولیات فراہم کی جائیں تاکہ وہ کم قیمت پر دودھ پیدا کر سکیں۔
مستقبل کے خدشات
اگر موجودہ حالات پر قابو نہ پایا گیا تو خدشہ ہے کہ آنے والے مہینوں میں "لاہور دودھ اور دہی کی قیمتیں” مزید بڑھ جائیں گی۔ ایسا ہونے کی صورت میں نہ صرف عام آدمی کی مشکلات میں اضافہ ہوگا بلکہ پورے فوڈ چین پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
مثال کے طور پر:
دودھ سے بننے والی دیگر مصنوعات (پنیر، مکھن، کھویا) بھی مہنگی ہو جائیں گی۔
ریستوران اور بیکری مصنوعات کی قیمتیں بھی بڑھیں گی۔
مجموعی طور پر مہنگائی کی شرح میں اضافہ ہوگا۔
دہی کے فوائد – پروبائیوٹکس سے بھرپور غذا جو بیماریوں کو دور کرے
"لاہور دودھ اور دہی کی قیمتیں” بڑھنے سے عوام کی مشکلات میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ جہاں ایک طرف صارفین پریشان ہیں، وہیں دوسری طرف کسان بھی اپنی مشکلات بیان کر رہے ہیں۔ حکومت کے لیے یہ چیلنج اس وقت اور بھی بڑا ہے کیونکہ مہنگائی پہلے ہی اپنے عروج پر ہے۔
اب ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت فوری اور عملی اقدامات کرے تاکہ دودھ اور دہی جیسی بنیادی اشیاء عوام کی پہنچ میں رہیں اور کسان بھی اپنے اخراجات پورے کر سکیں۔ بصورت دیگر یہ مسئلہ مستقبل میں مزید سنگین شکل اختیار کر سکتا ہے۔
Comments 1