پاکستان میں آمدن اور اخراجات: سروے کے حیران کن نتائج
پاکستان کی شہری آبادی اس وقت شدید معاشی دباؤ میں ہے، مگر ایک حالیہ سروے نے حیران کن اعداد و شمار جاری کیے ہیں۔ پلس کنسلٹنٹ کے تازہ سروے کے مطابق شہری آبادی میں ایسے افراد کی شرح دگنی ہو گئی ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی آمدن اور اخراجات ایک دوسرے کے ساتھ مطابقت رکھتے ہیں۔
سروے کی اہم جھلکیاں
سروے رپورٹ کے مطابق:
51 فیصد افراد نے کہا کہ ان کی موجودہ آمدن میں اخراجات پورے ہو رہے ہیں۔
گزشتہ سروے میں یہ شرح صرف 25 فیصد تھی۔
مشکل سے گزارا کرنے والوں کی شرح 75 فیصد سے کم ہو کر 49 فیصد پر آگئی ہے۔
یہ نتائج اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ اگرچہ معاشی حالات اب بھی سخت ہیں مگر کچھ بہتری کے آثار سامنے آ رہے ہیں۔ پاکستان میں آمدن اور اخراجات کا یہ توازن شہریوں کے لیے ایک مثبت خبر ہے۔
مردوں اور خواتین کے درمیان فرق
سروے کے مطابق مرد اور خواتین دونوں نے اس بار زیادہ اطمینان کا اظہار کیا ہے۔
2024 میں صرف 28 فیصد مرد یہ سمجھتے تھے کہ ان کی آمدن اخراجات پورے کرنے کے لیے کافی ہے۔
حالیہ سروے میں یہ شرح بڑھ کر 56 فیصد ہو گئی۔
خواتین میں 44 فیصد نے بتایا کہ وہ اپنی موجودہ آمدن میں اخراجات پورے کر پا رہی ہیں۔
یہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ پاکستان میں آمدن اور اخراجات کا دباؤ صرف مردوں تک محدود نہیں بلکہ خواتین بھی اس کا حصہ ہیں، تاہم اب دونوں گروہوں میں اطمینان کا رجحان بڑھ رہا ہے۔
شہری آبادی پر اثرات
پاکستان میں شہری آبادی ہمیشہ مہنگائی اور بے روزگاری کے دباؤ میں رہی ہے۔ لیکن تازہ اعداد و شمار یہ بتاتے ہیں کہ شاید لوگ اپنے بجٹ کو بہتر انداز میں مینج کرنے لگے ہیں۔
کچھ لوگ اپنی ترجیحات بدل رہے ہیں۔
غیر ضروری اخراجات میں کمی لا رہے ہیں۔
اضافی ذرائع آمدن تلاش کر رہے ہیں۔
اسی لیے شہریوں کی ایک بڑی تعداد اب یہ کہہ رہی ہے کہ ان کی آمدن اور اخراجات مطابقت میں آ گئے ہیں۔
معاشی ماہرین کی رائے
معاشی ماہرین کے مطابق یہ تبدیلی کئی وجوہات کی بنا پر ممکن ہوئی ہے:
ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں معمولی استحکام نے درآمدی اشیا کی قیمتوں پر کچھ اثر ڈالا ہے۔
حکومتی سبسڈی اور رعایتی پیکجز نے بھی عوام کو وقتی ریلیف فراہم کیا۔
شہریوں نے اپنی زندگی کے طرزِ عمل میں تبدیلی کر کے اخراجات کم کیے۔
ماہرین کے نزدیک یہ ایک عارضی بہتری بھی ہو سکتی ہے کیونکہ عالمی سطح پر مہنگائی اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ مستقبل میں پھر سے پاکستان میں آمدن اور اخراجات کے فرق کو بڑھا سکتا ہے۔
سماجی پہلو
اس سروے کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ پاکستانی معاشرے میں امید کی ایک نئی لہر دیکھی جا رہی ہے۔ جہاں پہلے زیادہ تر لوگ یہ شکایت کرتے تھے کہ آمدن اخراجات پورے نہیں کر پاتی، اب آدھی سے زیادہ آبادی یہ مانتی ہے کہ وہ کسی حد تک اپنے مالی معاملات سنبھالنے میں کامیاب ہیں۔
یہ تبدیلی سماجی استحکام میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے کیونکہ جب لوگوں کو لگے کہ ان کی آمدن سے اخراجات پورے ہو رہے ہیں تو ان کے ذہنی دباؤ میں کمی آتی ہے۔
دیہی اور شہری فرق
اگرچہ سروے شہری آبادی پر فوکس کرتا ہے، مگر ماہرین کا کہنا ہے کہ دیہی علاقوں میں صورتحال مختلف ہو سکتی ہے۔ وہاں کے لوگ براہ راست مہنگائی کے اثرات کا زیادہ شکار ہوتے ہیں اور اضافی ذرائع آمدن بھی محدود ہوتے ہیں۔ اس لیے پاکستان میں آمدن اور اخراجات کا توازن شہری علاقوں میں بہتر دکھائی دیتا ہے جبکہ دیہی علاقوں میں مشکلات زیادہ ہیں۔
مستقبل کی پیشگوئی
معاشی تجزیہ کاروں کے مطابق اگلے چند ماہ میں یہ صورتحال برقرار رہے گی یا نہیں، اس کا دارومدار حکومت کی پالیسیوں پر ہے۔ اگر بجلی، گیس اور پٹرول کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہوا تو پاکستان میں آمدن اور اخراجات کا توازن ایک بار پھر بگڑ سکتا ہے۔
اسی طرح اگر حکومت روزگار کے مواقع بڑھانے اور مہنگائی کم کرنے میں کامیاب رہی تو ممکن ہے کہ اگلے سروے میں یہ شرح مزید بہتر ہو۔
مہنگائی کی لہر، لاہور دودھ اور دہی کی قیمتیں عام آدمی کی پہنچ سے باہر
پلس کنسلٹنٹ کے تازہ سروے نے ایک دلچسپ حقیقت کو اجاگر کیا ہے: شہری آبادی کی بڑی تعداد اب یہ سمجھتی ہے کہ ان کی آمدن اخراجات پورے کرنے کے لیے کافی ہے۔ اگرچہ یہ بہتری عارضی ہو سکتی ہے، مگر اس نے عوام میں امید پیدا کی ہے۔
یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ پاکستان میں آمدن اور اخراجات کے درمیان توازن کی واپسی ایک مثبت اشارہ ہے، مگر اسے برقرار رکھنے کے لیے حکومت اور عوام دونوں کو مشترکہ کوششیں کرنا ہوں گی۔