پنجاب نے بجلی ڈیوٹی کی وصولی بلوں سے جاری رکھنے کی تجویز دے دی
پاکستان میں توانائی کے مسائل اور بجلی کے بڑھتے ہوئے نرخ ہمیشہ ہی سے عوام اور حکومت دونوں کے لیے ایک بڑا چیلنج رہے ہیں۔ ان چیلنجز میں جہاں بجلی کی پیداوار اور ترسیل کا مسئلہ شامل ہے، وہیں بجلی ڈیوٹی کی وصولی کا معاملہ بھی اہمیت رکھتا ہے۔ حال ہی میں پنجاب حکومت نے یہ تجویز پیش کی ہے کہ صوبے میں بجلی کی ڈیوٹی بلوں کے ذریعے ہی وصول کی جاتی رہے۔ یہ فیصلہ نہ صرف مالی طور پر اہم ہے بلکہ انتظامی معاملات میں بھی اس کا بڑا اثر نظر آتا ہے۔
وفاقی حکومت اور پنجاب کا اختلاف
وفاقی حکومت نے کچھ عرصہ قبل یہ فیصلہ کیا تھا کہ بجلی بلوں میں ڈیوٹی شامل نہیں کی جائے گی، مگر پنجاب نے اس فیصلے کو مالی طور پر غیر مؤثر قرار دیا۔ پنجاب حکومت کا مؤقف ہے کہ متبادل نظام کے ذریعے بجلی ڈیوٹی کی وصولی ممکن تو ہے لیکن یہ نہ تو مالی طور پر فائدہ مند ہوگا اور نہ ہی انتظامی لحاظ سے کارآمد۔ یہی وجہ ہے کہ صوبے نے وفاق کو تجویز دی ہے کہ پرانا نظام برقرار رکھا جائے تاکہ ڈیوٹی کی مد میں آمدنی کا سلسلہ جاری رہ سکے۔
بجلی ڈیوٹی کی اہمیت
بجلی ڈیوٹی کی وصولی سے حاصل ہونے والی رقم صوبائی بجٹ میں خاصی اہمیت رکھتی ہے۔ محکمہ خزانہ پنجاب کے مطابق 2023-24 میں صوبے نے بجلی ڈیوٹی کی مد میں 26.4 ارب روپے جمع کیے۔ یہ خطیر رقم مختلف ترقیاتی منصوبوں، سماجی بہبود اور توانائی کے شعبے میں بہتری کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ اگر یہ آمدن بند کر دی جائے یا متبادل ذرائع سے حاصل کی جائے تو صوبائی بجٹ پر بھاری دباؤ پڑ سکتا ہے۔
ڈسکوز کے ذریعے وصولی
پنجاب حکومت نے واضح کیا ہے کہ ڈسکوز (بجلی تقسیم کار کمپنیاں) کے ذریعے ہی بجلی ڈیوٹی کی وصولی ایک مؤثر طریقہ ہے۔ اس نظام میں عوام براہ راست بلوں کے ذریعے ڈیوٹی ادا کرتے ہیں جس سے نہ تو اضافی اخراجات آتے ہیں اور نہ ہی نیا ڈھانچہ کھڑا کرنے کی ضرورت پڑتی ہے۔ اس کے برعکس اگر متبادل نظام بنایا گیا تو اس کے لیے نیا عملہ، نیا نظام اور اضافی بجٹ درکار ہوگا، جو پہلے سے مالی بحران کے شکار صوبے کے لیے مشکل ثابت ہوگا۔
انتظامی مؤقف
پنجاب کے محکمہ خزانہ اور محکمہ قانون دونوں نے محکمہ توانائی کی تجویز کی تائید کی ہے۔ ان اداروں کا کہنا ہے کہ بجلی ڈیوٹی کی وصولی کا موجودہ نظام شفاف، کم خرچ اور مؤثر ہے۔ اگر یہ نظام ختم کیا گیا تو نہ صرف مالی نقصان ہوگا بلکہ صارفین اور اداروں دونوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
سیاسی پہلو
وزیر اعلیٰ پنجاب نے محکمہ توانائی کو وفاق سے رابطے کی ہدایت دی ہے تاکہ یہ مسئلہ جلد حل کیا جا سکے۔ پنجاب کابینہ بھی وفاق کو سفارش کرے گی کہ بجلی ڈیوٹی کی وصولی بلوں کے ذریعے ہی جاری رکھی جائے۔ یہ مسئلہ صرف مالی نوعیت کا نہیں بلکہ سیاسی بھی ہے کیونکہ بجلی کے بل پہلے ہی عوام کے لیے ایک حساس معاملہ ہیں۔ اگر ان میں مزید الجھنیں پیدا کی گئیں تو عوامی ردعمل سخت ہو سکتا ہے۔
عوامی نقطہ نظر
عوام کی ایک بڑی تعداد پہلے ہی بجلی کے زیادہ نرخوں سے پریشان ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت کو صرف بجلی ڈیوٹی کی وصولی پر توجہ نہیں دینی چاہیے بلکہ بجلی کے نرخوں میں کمی، لوڈشیڈنگ کے خاتمے اور توانائی کے متبادل ذرائع پر بھی کام کرنا چاہیے۔ تاہم، حکومتی ماہرین کا مؤقف ہے کہ ڈیوٹی کی مد میں حاصل ہونے والی آمدن صوبے کی ترقی اور عوامی بہبود کے منصوبوں میں لگائی جاتی ہے، اس لیے اس کا جاری رہنا ضروری ہے۔
مستقبل کے امکانات
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر پنجاب کی تجویز منظور ہو جاتی ہے تو آنے والے برسوں میں بھی بجلی ڈیوٹی کی وصولی کا سلسلہ اسی طرح بلوں کے ذریعے جاری رہے گا۔ اس سے صوبے کی مالی پوزیشن بہتر رہے گی اور ترقیاتی منصوبوں کے لیے وسائل میسر آئیں گے۔ تاہم، اگر وفاق اپنی پالیسی پر قائم رہتا ہے تو پھر پنجاب کو نیا نظام وضع کرنا ہوگا، جو مزید پیچیدگیاں پیدا کر سکتا ہے۔
اگست 2025 میں ریکارڈ بجلی کی قیمت میں کمی
مجموعی طور پر دیکھا جائے تو پنجاب حکومت کی تجویز حقیقت پسندانہ اور عملی معلوم ہوتی ہے۔(electricity duty in electricity bill) بجلی ڈیوٹی کی وصولی کے موجودہ نظام کو برقرار رکھنا عوام اور حکومت دونوں کے لیے فائدہ مند ہے۔ جہاں عوام کو ایک آسان اور واضح نظام میسر ہے، وہیں حکومت کو بھی اپنی آمدن کا ایک مستحکم ذریعہ حاصل رہتا ہے۔










Comments 2