وفاقی وزیر فوڈ سکیورٹی رانا تنویر: موجودہ حالات میں گندم پالیسی سب سے بڑا چیلنج
گندم پالیسی اور موجودہ حالات
پاکستان میں زراعت ملکی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے اور گندم اس شعبے کی سب سے اہم فصل ہے۔ تاہم، اس سال موسمیاتی تبدیلیوں، ہیٹ ویوز اور سیلاب کی تباہ کاریوں نے گندم کی پیداوار پر شدید خدشات پیدا کر دیے ہیں۔ وفاقی وزیر برائے نیشنل فوڈ سکیورٹی رانا تنویر نے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی میں واضح کیا کہ حالات دیکھ کر لگتا ہے کہ اس بار گندم کم لگے گی۔ اسی وجہ سے حکومت جلد از جلد نئی گندم پالیسی کا اعلان کرنے جا رہی ہے۔
چینی کی صورتحال اور زرعی معیشت
وزیر فوڈ سکیورٹی نے کمیٹی اجلاس میں بتایا کہ گزشتہ برس چینی کی بمپر فصل ہوئی تھی اور 13 لاکھ ٹن سرپلس بھی موجود تھا، جس میں سے 5 لاکھ ٹن اکتوبر میں برآمد کی گئی۔ لیکن موسمیاتی تبدیلی اور مافیا کی مداخلت کے باعث صورتحال بگڑ گئی اور قیمتوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔ اس وقت ملک میں 210 لاکھ ٹن چینی موجود ہے لیکن آئندہ سال یہ بھی متاثر ہوسکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت زراعت کے ہر شعبے کے ساتھ ساتھ گندم پر خصوصی توجہ دے رہی ہے اور نئی گندم پالیسی پر غور کر رہی ہے۔
موسمیاتی تبدیلی اور کسانوں کے مسائل
پاکستان موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کا براہ راست نشانہ بن رہا ہے۔ ہیٹ ویو کے باعث گنے میں سکروس کم ہوا، سیلاب نے لاکھوں ایکڑ پر کھڑی فصلیں تباہ کر دیں۔ کمیٹی کے رکن عبدالقادر نے اجلاس میں کہا کہ جنوبی پنجاب میں کسان گندم کی کاشت چھوڑ رہے ہیں کیونکہ بار بار کے سیلاب اور نقصان نے انہیں توڑ دیا ہے۔ اس صورتحال میں حکومت کا فرض ہے کہ کسانوں کے لیے ایسی گندم پالیسی بنائے جو انہیں سہارا دے سکے۔
گندم پالیسی اور آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات
وفاقی وزیر رانا تنویر نے کہا کہ وزیر اعظم بھی گندم کی صورتحال پر مسلسل رابطے میں ہیں اور آئی ایم ایف سے بات چیت جاری ہے تاکہ گندم پر امدادی قیمت دی جا سکے۔ اگر ایسا ہوا تو روٹی کی قیمت پر محض ایک روپے کا فرق پڑے گا مگر کسان کو براہ راست فائدہ ملے گا۔ حکومت کی تجویز ہے کہ گندم کی سپورٹ پرائس رکھی جائے تاکہ کسان زیادہ رقبے پر گندم کاشت کریں۔ یہ سب نئی گندم پالیسی کے اہم نکات ہیں جو اکتوبر کے پہلے ہفتے میں سامنے آسکتے ہیں۔
درآمدات اور مستقبل کے خدشات
رانا تنویر نے خبردار کیا کہ اگر گندم کی پیداوار میں کمی آئی تو آئندہ سال پاکستان کو 1.5 ارب ڈالر مالیت کی گندم درآمد کرنا پڑے گی۔ اس سے نہ صرف زر مبادلہ پر دباؤ بڑھے گا بلکہ مہنگائی میں مزید اضافہ ہوگا۔ لہٰذا حکومت بھرپور کوشش کر رہی ہے کہ مقامی پیداوار کو سہارا دینے کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جائیں۔
سیلابی نقصانات کا تخمینہ
وزیر فوڈ سکیورٹی نے بتایا کہ حکومت نے چین کی سیٹلائٹ کمپنی سے مدد مانگی ہے جو چند دنوں میں سیلاب سے متاثرہ علاقوں کے نقصانات کا تخمینہ فراہم کرے گی۔ اس تخمینے کی روشنی میں زرعی شعبے کی بحالی اور خاص طور پر نئی گندم پالیسی کو بہتر بنایا جائے گا تاکہ کسانوں کو براہ راست ریلیف دیا جا سکے۔
کسانوں کے لیے ریلیف اقدامات
پنجاب حکومت نے اعلان کیا ہے کہ متاثرہ کاشتکاروں کو 20 ہزار روپے فی ایکڑ دیا جائے گا۔ جس کا پکا گھر گرا اسے 10 لاکھ روپے اور کچے مکان والوں کو 5 لاکھ روپے دیے جائیں گے۔ حتیٰ کہ اگر کسی کسان کی گائے یا بھینس مر جائے تو اسے بھی 5 لاکھ روپے ملیں گے۔ یہ اقدامات زرعی معیشت کو سہارا دینے کے لیے ہیں لیکن اصل چیلنج ایک مربوط اور مضبوط گندم پالیسی بنانا ہے۔

پاکستان اس وقت زرعی چیلنجز کے نازک مرحلے سے گزر رہا ہے۔ اگر وقت پر درست گندم پالیسی کا اعلان کیا گیا اور کسانوں کو سہارا دیا گیا تو نہ صرف خوراک کی کمی سے بچا جا سکتا ہے بلکہ ملکی معیشت کو بھی استحکام مل سکتا ہے۔ بصورت دیگر گندم کی درآمد پر اربوں ڈالر خرچ ہوں گے اور عوام مہنگائی کے نئے طوفان سے دوچار ہوں گے۔
Comments 1