افغان طالبان نہ بھائی نہ دوست: خواجہ آصف کا دوٹوک پیغام
اسلام آباد– پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے افغان طالبان کے حوالے سے سخت مؤقف اختیار کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ "افغان طالبان نہ ہمارے بھائی ہیں اور نہ دوست”۔ اُن کا کہنا ہے کہ اگر طالبان حکومت نے پاکستان مخالف رویہ نہ بدلا تو سخت اقدامات ناگزیر ہوں گے۔
یہ بیان انہوں نے اے آر وائی نیوز کے پروگرام "خبر مالک کے ساتھ” میں گفتگو کے دوران دیا، جس نے نہ صرف پاکستان کے داخلی سلامتی چیلنجز کو اجاگر کیا بلکہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان بگڑتے ہوئے تعلقات کی نشاندہی بھی کی۔
افغانستان کی سرزمین سے حملے، دوستی پر سوالیہ نشان
خواجہ آصف نے گفتگو کے دوران کہا کہ پاکستان کے خلاف دہشت گردانہ حملوں میں افغانستان کی سرزمین استعمال ہو رہی ہے۔ ان حملوں میں سیکیورٹی اہلکاروں سمیت عام شہری بھی شہید ہو رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ:
"جب آپ کے گھر پر حملے ہوں اور حملہ آور آپ کے پڑوس سے آئیں، تو انہیں بھائی کہنا منافقت کے مترادف ہے۔”
وزیر دفاع کے اس بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کی عسکری اور سیاسی قیادت افغانستان کی موجودہ صورتحال پر شدید تحفظات رکھتی ہے، خاص طور پر ان حملوں کے حوالے سے جن میں تحریک طالبان پاکستان (TTP) ملوث پائی گئی ہے۔
افغان حکومت کا غیر ذمے دارانہ رویہ
وزیر دفاع نے زور دیا کہ اگر افغان طالبان نے پاکستان مخالف رویہ تبدیل نہ کیا تو پاکستان کو سخت اقدامات کرنا پڑیں گے۔ انہوں نے کہا کہ:
"طالبان حکومت کو بارہا خبردار کیا گیا ہے کہ وہ اپنی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہونے دے، لیکن مؤثر اقدامات نظر نہیں آ رہے۔”
یہ پہلی بار نہیں کہ پاکستان نے افغان طالبان سے تحفظات کا اظہار کیا ہو، تاہم اس بار وزیر دفاع کی جانب سے دیے گئے بیان کی سختی غیرمعمولی قرار دی جا رہی ہے۔
افغان مہاجرین کا مسئلہ: ایک نئی بحث
گفتگو کے دوران خواجہ آصف نے افغان مہاجرین کے معاملے پر بھی کھل کر اظہار خیال کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان دہائیوں سے افغان پناہ گزینوں کی میزبانی کر رہا ہے، لیکن ان میں سے اکثریت پاکستان کی شناخت اور نظریے کو قبول نہیں کرتی۔
انہوں نے کہا:
"یہ افغان مہاجرین نہ پاکستان کے پرچم کو سلام کرتے ہیں، نہ ’پاکستان زندہ باد‘ کا نعرہ لگاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو بھائی کیسے کہا جا سکتا ہے؟”
یہ بیانیہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب حکومت نے افغان مہاجرین کو ملک بدر کرنے کا عمل تیز کر دیا ہے۔ کئی حلقے اس فیصلے کو انسانی حقوق کے نقطہ نظر سے تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں، جبکہ حکومت اسے قومی سلامتی کا معاملہ قرار دے رہی ہے۔
علاقائی تناؤ اور ممکنہ نتائج
تجزیہ کاروں کے مطابق وزیر دفاع کا بیان دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی میں اضافے کا باعث بن سکتا ہے۔ اگرچہ پاکستان نے ہمیشہ افغان عوام کی حمایت کی ہے، لیکن موجودہ حالات میں حکومت پاکستان اب افغان طالبان سے "بھائی چارے” کے جذبات پیچھے چھوڑ کر عملی اقدامات کی طرف مائل نظر آتی ہے۔
تجزیہ کار امتیاز گل کا کہنا ہے:
"پاکستان کو اب اپنی سیکیورٹی پالیسی میں واضح تبدیلی کی ضرورت ہے۔ افغان طالبان کی پالیسیوں پر انحصار ختم کرکے سرحدی نظم و ضبط اور داخلی سیکیورٹی کو اولین ترجیح دینی ہوگی۔”
مستقبل کی سمت: نرم رویہ یا سخت اقدام؟
پاکستان کی حکومت کی جانب سے ایک واضح پیغام یہ دیا جا رہا ہے کہ پاکستان اپنی سلامتی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گا۔ وزیر دفاع کے الفاظ میں:
"ہم نے بہت برداشت کر لیا، اب فیصلے وقت کی ضرورت بن چکے ہیں۔”
اب یہ دیکھنا باقی ہے کہ کیا افغان حکومت اس سخت پیغام کو سنجیدگی سے لے گی یا حالات مزید کشیدگی کی طرف جائیں گے۔
دوستی کی نئی تعریف یا فاصلے کا آغاز؟
افغان طالبان کے حوالے سے خواجہ آصف کا بیان پاکستان کی خارجہ پالیسی میں ایک اہم موڑ کی علامت سمجھا جا رہا ہے۔ ماضی میں "برادر اسلامی ملک” کہہ کر جس حکومت سے نرمی برتی جا رہی تھی، اب اسی حکومت پر واضح الزامات اور ممکنہ ردعمل کی بات کی جا رہی ہے۔
پاکستان کے عوام، ریاستی ادارے، اور پالیسی ساز سب اس بات پر متفق دکھائی دے رہے ہیں کہ قومی سلامتی اولین ترجیح ہے — چاہے اس کے لیے کتنے ہی سخت فیصلے کیوں نہ کرنے پڑیں۔
