کراچی میں دودھ کی قیمتوں کا بحران: ڈیری فارمرز کا 50 روپے فی کلو اضافے کا مطالبہ، کاروبار بند کرنے کی دھمکی
کراچی میں دودھ کی قیمتیں ایک بار پھر خبروں کی زینت بن گئی ہیں۔ ڈیری فارمرز ایسوسی ایشن نے دودھ کی فی کلو قیمت میں 50 روپے اضافے کا مطالبہ کر دیا ہے، اور اگر یہ مطالبہ پورا نہ ہوا تو کاروبار بند کرنے اور وزیراعلیٰ ہاؤس کے باہر پرامن احتجاج کی دھمکی بھی دی ہے۔
پریس کانفرنس میں کیا ہوا؟
کراچی پریس کلب میں ایک اہم پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ڈیری فارمرز ایسوسی ایشن کے نائب صدر چوہدری فاروق نے کہا کہ:
"ڈیری فارمرز روزانہ کی بنیاد پر 30 کروڑ روپے کا نقصان برداشت کر رہے ہیں۔ ہم کمشنر کراچی سے درخواست کرتے ہیں کہ یکم اکتوبر تک دودھ کے نئے نرخ مقرر کیے جائیں۔”
ان کا کہنا تھا کہ حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ اگر مطالبات تسلیم نہ کیے گئے تو ڈیری فارمرز کو اپنا کاروبار بند کرنا پڑے گا، جو کہ نہ صرف ہزاروں خاندانوں کے لیے روزگار کا مسئلہ بنے گا بلکہ شہریوں کو دودھ کی فراہمی بھی متاثر ہوگی۔
ڈیری فارمرز کے مسائل کی جڑ کہاں ہے؟
چوہدری فاروق اور جنرل سیکریٹری شوکت مختار نے دودھ کی بڑھتی لاگت کی متعدد وجوہات بیان کیں، جن میں درج ذیل شامل ہیں:
سیلاب کی تباہ کاریاں: کراچی اور اس کے مضافات میں حالیہ بارشوں اور سیلابی صورتحال نے بھینس کالونیوں اور فارمز کو شدید متاثر کیا۔
جانوروں کی خوراک کا بحران: بھینسوں اور گایوں کی خوراک کا بنیادی ذریعہ بھوسا ہے، جو مارکیٹ میں ناپید ہو چکا ہے۔
قیمتوں میں 30 فیصد اضافہ: ڈیری فارمنگ کے ہر شعبے میں، چاہے وہ چارہ ہو، دوائیں ہوں یا ٹرانسپورٹ، قیمتوں میں اوسطاً 30 فیصد تک اضافہ ہو چکا ہے۔
جانور بھوکے مرنے کے خدشات: خوراک کی عدم دستیابی کے باعث جانوروں کی صحت خراب ہو رہی ہے، اور اگر یہ صورتحال برقرار رہی تو جانور مرنے لگیں گے۔
کراچی کو روزانہ کتنا دودھ درکار ہوتا ہے؟
شوکت مختار کے مطابق، کراچی میں مختلف بھینس کالونیوں میں 10 لاکھ سے زائد جانور موجود ہیں، اور شہر کو یومیہ تقریباً 50 لاکھ لیٹر دودھ فراہم کیا جاتا ہے۔ اگر ڈیری فارمرز واقعی کاروبار بند کرتے ہیں، تو اس کا براہِ راست اثر شہر کے لاکھوں صارفین پر پڑے گا۔
کیمیائی دودھ: ایک اور خطرناک پہلو
چوہدری فاروق نے انکشاف کیا کہ:
"مارکیٹ میں کچھ افراد کیمیائی مواد ملا دودھ فروخت کر رہے ہیں، جس سے نہ صرف صارفین کی صحت کو خطرہ ہے بلکہ اصل ڈیری فارمرز کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے۔”
انہوں نے اس حوالے سے متعلقہ اداروں کو باقاعدہ شکایات بھیجی ہیں، تاہم اس پر اب تک کوئی موثر کارروائی سامنے نہیں آئی۔
قانونی جنگ اور انتظامیہ کی بے حسی
ڈیری فارمرز نے یہ بھی انکشاف کیا کہ انہوں نے کمشنر کراچی کو متعدد بار خطوط ارسال کیے، جن میں دودھ اور گوشت کی قیمتوں میں جائز اضافے کی درخواست کی گئی، مگر کوئی خاطر خواہ جواب نہیں آیا۔ ایسوسی ایشن کا موقف ہے کہ وہ من مانے اضافے کے قائل نہیں، بلکہ صرف اتنا اضافہ چاہتے ہیں جس سے ان کے کاروبار کی بقا ممکن ہو سکے۔
کیا صارفین اس اضافے کو برداشت کر پائیں گے؟
دودھ کی قیمت میں 50 روپے فی کلو اضافے کا مطلب ہے کہ موجودہ قیمت تقریباً 180 روپے فی لیٹر سے بڑھ کر 230 روپے فی لیٹر ہو جائے گی۔ ایسے میں عام شہری، جو پہلے ہی مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں، اس اضافے کو برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتے۔
ماہانہ آمدنی 30 سے 50 ہزار روپے کے درمیان رکھنے والے طبقے کے لیے دودھ جیسی بنیادی ضرورت کا مہنگا ہونا خطرناک سماجی اثرات مرتب کر سکتا ہے، خاص طور پر جب کہ بچوں کی نشوونما میں دودھ ایک لازمی غذائی جزو ہے۔
حکومت کہاں کھڑی ہے؟
یہ سوال بار بار اٹھ رہا ہے کہ حکومت، خصوصاً کمشنر کراچی، ڈیری فارمرز کے جائز مطالبات پر سنجیدگی سے غور کیوں نہیں کر رہی؟ کیا صرف انتظامی دباؤ یا بحران کے پیدا ہونے کے بعد ہی ایکشن لیا جائے گا؟ اگر بروقت اقدامات نہ کیے گئے تو:
- دودھ کی غیر قانونی ذخیرہ اندوزی بڑھے گی
- جعلی دودھ کی فروخت میں اضافہ ہوگا
- قانونی ڈیری فارمرز کا شعبہ متاثر ہوگا
- شہریوں میں عدم اعتماد بڑھے گا
- وزیراعلیٰ ہاؤس پر احتجاج: پرامن یا فیصلہ کن؟
ڈیری فارمرز نے واضح کیا ہے کہ اگر ان کے مطالبات تسلیم نہ کیے گئے تو وہ وزیراعلیٰ ہاؤس پر پرامن احتجاج کریں گے۔ اس قسم کے احتجاج ماضی میں بھی ہو چکے ہیں، مگر اس بار صورتحال زیادہ سنگین ہے کیونکہ پورا شعبہ بحران کی لپیٹ میں ہے۔
کیا یہ صرف کراچی کا مسئلہ ہے؟
اگرچہ موجودہ صورتحال کا مرکز کراچی ہے، مگر ماہرین کے مطابق یہ بحران دیگر شہروں تک بھی پھیل سکتا ہے۔ لاہور، فیصل آباد، حیدرآباد اور دیگر بڑے شہروں میں بھی ڈیری فارمرز اسی طرح کے مسائل کا سامنا کر رہے ہیں۔
اگر کراچی میں اضافے کی منظوری دی جاتی ہے، تو دیگر شہروں میں بھی قیمتیں بڑھنے کا رجحان سامنے آ سکتا ہے، جس سے ملک گیر دودھ بحران جنم لے سکتا ہے۔
حل کیا ہے؟ تجویز کردہ اقدامات
- قیمتوں کا شفاف تعین: کمشنر کراچی کو تمام اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لے کر دودھ کی قیمت کا شفاف اور منصفانہ تعین کرنا چاہیے۔
- فارمرز کو سبسڈی: حکومت کو چاہیے کہ چارے، دواؤں اور جانوروں کی خوراک پر سبسڈی دے تاکہ فارمرز کو براہ راست فائدہ ہو۔
- جعلی دودھ کے خلاف کریک ڈاؤن: کیمیکل ملا دودھ فروخت کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔
- شہریوں کے لیے آگاہی مہم: عوام کو بتایا جائے کہ دودھ کی قیمتیں کیوں بڑھ رہی ہیں اور جعلی دودھ سے کیسے بچا جائے۔
بحران سے پہلے حل تلاش کرنا ہوگا
کراچی میں دودھ کی قیمتوں کا معاملہ محض ایک عددی اضافہ نہیں، بلکہ پورے نظامِ خوراک، معیشت اور صحت کا مسئلہ بن چکا ہے۔ ڈیری فارمرز کی جانب سے دی گئی مہلت ختم ہونے کو ہے، اور اگر حکومت نے فوری اقدامات نہ کیے تو نہ صرف دودھ نایاب ہو سکتا ہے بلکہ احتجاجی فضا بھی گرم ہو جائے گی۔
اب یہ دیکھنا ہے کہ کمشنر کراچی اور وزیراعلیٰ سندھ اس بحران کا حل عوامی مفاد میں نکالتے ہیں یا اسے نظر انداز کرتے ہیں؟












Comments 1