AJK govt talks with awami action committee – وزیراعظم نے احتجاج کے بجائے مذاکرات پر زور دیا: وزیراعظم نے احتجاج کے بجائے مذاکرات کی دعوت دی
آزاد کشمیر میں جاری سیاسی و سماجی کشیدگی کے پیش نظر، حکومت آزاد کشمیر نے عوامی ایکشن کمیٹی کو مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کی کھلی دعوت دے دی ہے۔ وزیراعظم آزاد کشمیر چودھری انوارالحق نے واضح طور پر کہا ہے کہ مہذب معاشروں میں اختلافات اور مطالبات کا حل صرف مذاکرات کے ذریعے ہی ممکن ہے، تشدد اور اشتعال انگیزی سے نہ صرف انسانی جانوں کا نقصان ہوتا ہے بلکہ معاشرہ انارکی کی طرف بھی بڑھتا ہے۔
اسلام آباد میں ایک اہم مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم آزاد کشمیر چودھری انوارالحق اور مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما ڈاکٹر طارق فضل چودھری نے حالیہ احتجاجی مظاہروں، سیکیورٹی صورتحال، اور حکومتی اقدامات پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔
مذاکرات کی دعوت: وزیر اعظم آزاد کشمیر کا کھلا پیغام
چودھری انوارالحق نے عوامی ایکشن کمیٹی کے رہنماؤں کو براہ راست مخاطب کرتے ہوئے کہا:
“میں کھلے دل سے عوامی ایکشن کمیٹی کو مذاکرات کی دعوت دیتا ہوں۔ تشدد کے راستے پر کسی بھی مقصد کا حصول ممکن نہیں ہے۔ ایک شخص کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے، اور جو جانی نقصان ہوا ہے، اس پر مجھے شدید دکھ ہے۔”
انہوں نے مزید بتایا کہ اب تک کے مظاہروں میں تین پولیس اہلکار شہید جبکہ 100 سے زائد زخمی ہو چکے ہیں، جو انتہائی افسوسناک ہے۔ ان کے مطابق، احتجاج کا حق سب کو حاصل ہے لیکن جب یہ احتجاج پرتشدد شکل اختیار کرے تو اس سے معاشرہ غیر یقینی اور خوف کی فضا میں چلا جاتا ہے۔
تشدد کی بجائے سنجیدہ مذاکرات پر زور
وزیراعظم چودھری انوارالحق کا کہنا تھا کہ:
"سویلین کو اشتعال دلا کر سڑکوں پر لانا انارکی کو جنم دیتا ہے۔ عوام کو اشتعال دلانا آسان مگر مسائل کو حل کرنا مشکل ترین کام ہے۔ حکومت سنجیدہ ہے اور ہر جائز مطالبے پر بات چیت کے لیے تیار ہے۔”
انہوں نے عوامی ایکشن کمیٹی کو پیشکش کی کہ وہ مظفرآباد، راولا کوٹ یا کسی بھی مقام پر مذاکرات کے لیے آئیں، حکومت ان کے تمام تحفظات سننے اور حل کرنے کو تیار ہے۔
طویل مذاکرات اور تحریری معاہدہ
ڈاکٹر طارق فضل چودھری نے پریس کانفرنس کے دوران انکشاف کیا کہ ماضی میں عوامی ایکشن کمیٹی کے ساتھ 12 گھنٹے پر مشتمل تفصیلی مذاکرات کیے گئے تھے، جس کے نتیجے میں 90 فیصد سے زائد مطالبات کو تسلیم کر لیا گیا تھا۔
منظور شدہ مطالبات میں شامل:
- گندم کی فراہمی کا مطالبہ
- بجلی کے نرخوں میں کمی
- لوکل گورنمنٹ سے متعلق اصلاحات
- سابق احتجاج میں معطل سرکاری ملازمین کی بحالی
- پولیس کے خلاف مقدمات ختم کرنے پر رضامندی
انہوں نے کہا:
"مذاکرات کے دوران ہم دونوں (امیر مقام اور میں) وفاقی حکومت کی جانب سے گارنٹر تھے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے تحریری حکم نامے جاری کیے۔”
باقی مطالبات اور آئینی رکاوٹیں
ڈاکٹر طارق فضل چودھری کے مطابق دو مطالبات ایسے تھے جن پر آئینی ترمیم کی ضرورت ہے، جن میں:
- مہاجرین کی نشستیں ختم کرنا
- وزراء کی تعداد میں کمی
ان مطالبات پر ڈیڈ لاک پیدا ہوا، جسے فی الحال مؤخر کیا گیا۔ تاہم حکومت نے یقین دہانی کروائی کہ ان پر بھی بعد میں غور کیا جائے گا۔
پرامن احتجاج کی اپیل: حکومت کی خواہش
پریس کانفرنس کے دوران دونوں رہنماؤں نے اس بات پر زور دیا کہ 29 ستمبر کو دی جانے والی پرامن احتجاج کی کال کا احترام کیا جانا چاہیے تھا۔ لیکن احتجاج کے دوران جو پرتشدد واقعات پیش آئے، ان سے صورت حال بگڑ گئی۔
ڈاکٹر طارق فضل چودھری نے کہا:
"ہم جنت نظیر وادی میں ایسے مناظر نہیں دیکھنا چاہتے۔ وزیراعظم شہباز شریف لندن سے واپسی پر خود عوامی ایکشن کمیٹی کے رہنماؤں سے ملاقات کا ارادہ رکھتے ہیں۔”
انہوں نے خبردار کیا کہ اگر موجودہ حالات برقرار رہے تو بین الاقوامی سطح پر آزاد کشمیر کا منفی تاثر جائے گا، جس کا فائدہ دشمن قوتیں اٹھا سکتی ہیں۔
عوامی ایکشن کمیٹی کا مؤقف
اگرچہ اس پریس کانفرنس میں عوامی ایکشن کمیٹی کے نمائندے موجود نہیں تھے، تاہم ذرائع کے مطابق کمیٹی کا موقف ہے کہ حکومت نے پہلے بھی وعدے کیے لیکن ان پر مکمل عمل درآمد نہیں ہوا۔ کمیٹی کی قیادت اس بار مکمل اور تحریری ضمانت چاہتی ہے کہ ان کے مطالبات پر نہ صرف غور کیا جائے گا بلکہ انہیں مقررہ وقت میں عملی جامہ بھی پہنایا جائے گا۔
عوامی ایکشن کمیٹی کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ پرامن احتجاج کے حامی ہیں، لیکن پولیس کے ساتھ جھڑپیں انتظامیہ کی جانب سے سختی کی وجہ سے ہوئیں۔
موجودہ صورتحال اور عوامی تاثر
آزاد کشمیر کی عوام اس تمام صورت حال کو گہری نظر سے دیکھ رہی ہے۔ مہنگائی، بجلی کے بڑھتے ہوئے نرخ، گندم کی کمی، اور حکومتی وعدوں پر عدم عمل درآمد نے عوام میں غم و غصے کو جنم دیا ہے۔
لیکن ساتھ ہی عوام کی بڑی تعداد یہ بھی چاہتی ہے کہ:
- مسئلے کو مذاکرات سے حل کیا جائے
- جانی و مالی نقصان سے بچا جائے
- آزاد کشمیر کا پرامن تشخص برقرار رہے
مذاکرات یا مزید کشیدگی؟
وزیراعظم آزاد کشمیر اور وفاقی رہنماؤں کی جانب سے عوامی ایکشن کمیٹی کو مذاکرات کی پیشکش ایک مثبت قدم ضرور ہے، لیکن اس کا اصل فائدہ تبھی ممکن ہے جب دونوں فریقین خلوص نیت سے ایک دوسرے کے مؤقف کو سننے اور سمجھنے کے لیے تیار ہوں۔
تشدد، توڑ پھوڑ اور جانی نقصان نہ صرف موجودہ مسئلے کو پیچیدہ بناتا ہے بلکہ عوام کے اصل مسائل پس منظر میں چلے جاتے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ ماضی کے وعدوں کو عملی جامہ پہنائے، جبکہ عوامی ایکشن کمیٹی کو چاہیے کہ وہ ایک بار پھر مذاکرات کا راستہ اختیار کرے۔











