ادویات کی ڈی ریگولیشن نے مارکیٹ میں قلت کا خاتمہ اور دستیابی آسان بنائی
پاکستان میں کئی سالوں سے ادویات کی قلت اور بلیک مارکیٹ کا مسئلہ شدت اختیار کر گیا تھا۔ عام شہریوں کو پیناڈول جیسی بنیادی دوا بھی آسانی سے نہیں مل رہی تھی جبکہ انسولین اور ٹی بی کی دوائیں بھی نایاب ہو گئی تھیں۔ حکومت نے صورتحال کو قابو میں لانے کے لیے ادویات کی ڈی ریگولیشن پالیسی متعارف کرائی جس کے مثبت اثرات اب نظر آ رہے ہیں۔
پالیسی کی تفصیل
حکومت نے غیر ضروری اور عام استعمال کی بعض دواؤں کی قیمتوں کو مارکیٹ کے اصولوں کے مطابق چھوڑ دیا ہے۔ اس اقدام کے بعد فارماسیوٹیکل کمپنیوں کو پیداواری لاگت کے مطابق قیمتیں طے کرنے کی اجازت دی گئی۔ ماہرین کے مطابق ادویات کی ڈی ریگولیشن (Deregulation of medicines) نے پیداوار کو ممکن بنایا اور بلیک مارکیٹ کے راستے بند کر دیے۔
قلت کا خاتمہ
پہلے انسولین، پیناڈول اور مرگی و نفسیاتی امراض کی دوائیں عام دستیاب نہیں تھیں۔ اب فارمیسیز پر یہ تمام ادویات موجود ہیں۔ پاکستان فارماسیوٹیکل مینوفیکچررز ایسوسی ایشن کے چیئرمین توقیر الحق کے مطابق ادویات کی ڈی ریگولیشن کے بعد کمپنیوں نے دوبارہ بڑے پیمانے پر پیداوار شروع کر دی ہے۔
پیداواری لاگت اور قیمتوں کا مسئلہ
فارما کمپنیوں کا مؤقف تھا کہ حکومت کی مقرر کردہ پرانی قیمتیں پیداواری لاگت سے کم تھیں۔ مثال کے طور پر ایک گولی جس کی لاگت 6 روپے تھی، حکومت نے اس کی قیمت صرف 3 روپے رکھی ہوئی تھی۔ اس کے نتیجے میں پیداوار روک دی گئی اور قلت پیدا ہو گئی۔ اب ادویات کی ڈی ریگولیشن کے بعد یہ گولی اصل لاگت کے مطابق 6 روپے میں دستیاب ہے۔
عوامی فائدہ
اگرچہ قیمتوں میں کچھ اضافہ ہوا ہے لیکن عام شہریوں کے لیے یہ سہولت پیدا ہوئی کہ اب دوائیں باآسانی دستیاب ہیں۔ صحت کے ماہرین کے مطابق ادویات کی ڈی ریگولیشن کے نتیجے میں جعلی اور غیر معیاری ادویات کی سپلائی بھی کم ہوئی ہے کیونکہ مارکیٹ میں اصل اور رجسٹرڈ دوائیں دوبارہ آ گئی ہیں۔
لازمی اور غیر ضروری ادویات
حکومت نے واضح کیا ہے کہ یہ پالیسی صرف غیر ضروری ادویات پر لاگو ہے۔ 460 سے زائد بنیادی اور لازمی ادویات اب بھی حکومتی کنٹرول میں ہیں تاکہ وہ عام آدمی کو کم قیمت پر مل سکیں۔ اس طرح ادویات کی ڈی ریگولیشن کا فائدہ بھی ہوا اور عوامی تحفظ بھی یقینی بنایا گیا۔
فارماسیوٹیکل مارکیٹ کا حجم
ڈیٹا کے مطابق فارماسیوٹیکل مارکیٹ کا حجم بھی بڑھا ہے۔ IQVIA کے اعدادوشمار کے مطابق 2023 میں اس شعبے میں 0.8 فیصد اضافہ ریکارڈ ہوا تھا، جو اس سال بڑھ کر 3.6 فیصد ہو گیا ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ اضافہ ادویات کی ڈی ریگولیشن اور نئے برانڈز کے تعارف کی بدولت ممکن ہوا۔
بلیک مارکیٹ پر قابو
پہلے جب مارکیٹ میں قلت ہوتی تھی تو بلیک مارکیٹ میں دوائیں کئی گنا مہنگی فروخت ہوتی تھیں۔ مریض مجبوری میں یہ دوائیں خریدتے تھے۔ لیکن اب ادویات کی ڈی ریگولیشن نے اس غیر قانونی کاروبار کو بڑی حد تک ختم کر دیا ہے۔
قیمتوں میں اضافہ کتنا ہوا؟
مشترکہ سروے (PPMA، فارما بیورو اور IQVIA) کے مطابق سرفہرست 100 فارما برانڈز کی قیمتوں میں اوسطاً 16.5 فیصد اضافہ ہوا۔ تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ اضافہ زیادہ تر پرانی ایڈجسٹمنٹس اور نئی مصنوعات کے باعث ہے۔
مستقبل کے امکانات
ماہرین کا خیال ہے کہ اگر حکومت اسی پالیسی کو شفاف طریقے سے جاری رکھے تو نہ صرف قلت ختم ہوگی بلکہ مقامی فارماسیوٹیکل صنعت بھی مزید ترقی کرے گی۔ اس سے ایک طرف روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے اور دوسری طرف مریضوں کو معیاری ادویات میسر آئیں گی۔
ادویات کی ڈی ریگولیشن پاکستان کے صحت کے شعبے کے لیے ایک اہم قدم ہے۔ اس سے نہ صرف دواؤں کی قلت ختم ہوئی بلکہ بلیک مارکیٹ کا راستہ بھی بند ہوا۔ اب مریضوں کو انسولین، پیناڈول اور دیگر دوائیں فارمیسیز پر باآسانی دستیاب ہیں، جو عوام کے لیے ایک بڑی سہولت ہے۔
وٹامن ڈی حیاتیاتی عمر کو سست کرنے کا راز، ماہرین کی تحقیق
