پاکستانی شہریوں سے شادی کرنے والی تین افغان خواتین نے اپنی افغانستان واپسی کے خدشے کے پیشِ نظر اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کرلیا
عدالت نے ان خواتین کی درخواستوں پر سماعت کے بعد کیس چیف جسٹس کو بھیجنے کا حکم دیا ہے۔ یہ معاملہ نہ صرف انسانی ہمدردی بلکہ قانونی اور آئینی حیثیت سے بھی نہایت اہمیت کا حامل قرار دیا جا رہا ہے۔
معاملے کی تفصیل
ایکسپریس نیوز کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس انعام امین منہاس نے افغان خواتین کی جانب سے دائر کردہ درخواستوں پر ابتدائی سماعت کی۔ ان خواتین نے مؤقف اختیار کیا کہ وہ پاکستانی شہریوں کے ساتھ قانونی شادی کے بندھن میں بندھی ہوئی ہیں اور ان کے بچے بھی پاکستان میں پیدا ہوئے ہیں۔ اس لیے انہیں زبردستی افغانستان بھیجنا بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوگی۔
درخواست گزار خواتین کے وکیل بیرسٹر عمر اعجاز گیلانی نے عدالت کو بتایا کہ:
- یہ خواتین پاکستانی شہریوں کی قانونی بیویاں ہیں۔
- ان کے بچوں کے فارم "بی” جاری ہو چکے ہیں جو ان کی پاکستانی شہریت کی واضح نشانی ہے۔
- ماؤں کو زبردستی افغانستان واپسی پر مجبور کرنا نہ صرف ان کے خاندان کو توڑ دے گا بلکہ پاکستانی بچوں کے حقوق کی بھی خلاف ورزی ہوگی۔
وکیل کا مؤقف
بیرسٹر عمر اعجاز گیلانی نے مؤقف اختیار کیا کہ آئین پاکستان ہر شہری کو خاندان اور ازدواجی زندگی کا حق دیتا ہے۔ ان خواتین کی زبردستی ملک بدری سے یہ حق بری طرح متاثر ہوگا۔
انہوں نے عدالت کو مزید بتایا کہ اس سے قبل بھی ایک ایسا ہی کیس چیف جسٹس کی عدالت میں زیرِ سماعت ہے، اس لیے مناسب ہوگا کہ ان خواتین کا کیس بھی وہیں سنا جائے تاکہ یکساں نوعیت کے معاملات میں متضاد فیصلے نہ ہوں۔
عدالت کا فیصلہ
جسٹس انعام امین منہاس نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد کیس کو چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کے سامنے پیش کرنے کی ہدایت دے دی۔ عدالت نے قرار دیا کہ چونکہ یہ معاملہ بنیادی انسانی حقوق اور شہریت کے پیچیدہ قانونی سوالات سے جڑا ہے، اس لیے اس پر چیف جسٹس خود فیصلہ کریں۔

قانونی پہلو
قانونی ماہرین کے مطابق اگر کوئی غیر ملکی خاتون کسی پاکستانی شہری سے قانونی طور پر شادی کرے تو وہ پاکستانی شہریت حاصل کرنے کی اہل ہو جاتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اگر بچوں کے فارم "بی” بن چکے ہوں تو اس کا مطلب ہے کہ بچوں کو پاکستانی شہریت حاصل ہے۔ اس صورت میں ان ماؤں کو افغانستان واپس بھیجنے کا کوئی قانونی جواز نہیں بنتا۔
انسانی ہمدردی کا پہلو
یہ معاملہ محض ایک قانونی مقدمہ نہیں بلکہ ایک انسانی المیہ بھی ہے۔ اگر ان خواتین کو زبردستی افغانستان واپسی پر مجبور کیا گیا تو:
- پاکستانی شوہر اپنی بیویوں سے جدا ہو جائیں گے۔
- بچوں کو اپنی ماؤں سے محروم ہونا پڑے گا۔
- خاندان ٹوٹنے سے بچوں کی ذہنی اور نفسیاتی نشوونما پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
پاکستان میں انسانی حقوق کے ادارے اس معاملے کو ہمدردی کے تناظر میں دیکھنے پر زور دے رہے ہیں۔
ماضی کے ایسے کیسز
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ غیر ملکی خواتین کو پاکستانی شوہروں سے شادی کے باوجود مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہو۔ اس سے قبل بھی ایسے کئی کیس سامنے آ چکے ہیں جن میں عدالتوں کو مداخلت کرنا پڑی۔ زیادہ تر کیسز میں عدالت نے یہ قرار دیا کہ شادی اور بچوں کی پیدائش کے بعد زبردستی ملک بدری انسانی حقوق اور آئینی ضمانتوں کے خلاف ہے۔
موجودہ حالات اور مشکلات
افغانستان میں موجودہ حالات بھی ایک بڑی رکاوٹ ہیں۔ اگر یہ خواتین افغانستان واپس بھیجی جاتی ہیں تو انہیں نہ صرف غیر یقینی حالات کا سامنا ہوگا بلکہ ان کے بچے بھی والدین کی جدائی کا شکار ہوں گے۔ انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ موجودہ حالات میں ان خواتین کی افغانستان واپسی نہ صرف غیر منصفانہ بلکہ غیر محفوظ بھی ہے۔
ماہرین کی رائے
قانونی اور انسانی حقوق کے ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ ریاست کو ان خواتین کے معاملے کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر دیکھنا چاہیے۔ پاکستان چونکہ انسانی حقوق کے کئی عالمی معاہدوں کا فریق ہے، اس لیے ایسے فیصلے ملک کی بین الاقوامی ساکھ پر بھی اثر ڈالتے ہیں۔
آئندہ کی صورتحال
اب یہ معاملہ چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کے سامنے ہے۔ ماہرین کے مطابق اس کیس میں عدالت کا فیصلہ مستقبل میں اسی نوعیت کے دیگر مقدمات کے لیے بھی مثال بن سکتا ہے۔ اگر عدالت نے ان خواتین کی حق میں فیصلہ دیا تو مستقبل میں ایسی مزید خواتین کو افغانستان واپسی کے خطرے سے تحفظ مل سکے گا۔
وفاقی وزیرداخلہ کی افغان ہم منصب سے اہم ملاقات ، خوارجی کارروائیوں کو روکنے میں تعاون پر زور