افغانستان زلزلے کی ہولناک تباہی اور انسانی المیہ، اقوام متحدہ کا زلزلے کے پیش نظر پاکستان سے افغانوں کی بے دخلی روکنے کا مطالبہ
افغانستان ایک بار پھر قدرتی آفات کے رحم و کرم پر ہے۔ مشرقی صوبوں میں آنے والے حالیہ زلزلوں نے پورے خطے کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اب تک 1457 سے زائد افراد جاں بحق، 3394 زخمی اور 6700 گھر مکمل تباہ ہو چکے ہیں۔ امدادی تنظیمیں خبردار کر رہی ہیں کہ اگر فوری فنڈنگ اور امداد نہ ملی تو ہزاروں متاثرین خوراک اور پناہ سے محروم ہو جائیں گے۔
یہ زلزلے نہ صرف انسانی جانوں کے ضیاع کا سبب بنے بلکہ افغانستان کے پہلے ہی کمزور انفراسٹرکچر، غربت اور جاری سیاسی عدم استحکام کو مزید پیچیدہ بنا گئے ہیں۔
زلزلے کی شدت اور جغرافیائی پس منظر
افغانستان ہندوکش کے پہاڑی سلسلے میں واقع ہے، جو بھارتی اور یوریشیائی ٹیکٹونک پلیٹس کے ملاپ کی جگہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ خطہ بار بار زلزلوں کی زد میں رہتا ہے۔ حالیہ جھٹکوں کی شدت 6.0 ریکارڈ کی گئی، جس نے سرحدی دیہات کو ملیا میٹ کر دیا۔
ماہرین کے مطابق یہ زلزلے زمین کی گہرائی میں ہونے والی شدید حرکات کی وجہ سے آئے۔ چونکہ یہاں گھروں کی تعمیر زیادہ تر کچی اینٹوں، خشک پتھروں اور لکڑی سے کی جاتی ہے، اس لیے معمولی جھٹکے بھی بڑے پیمانے پر تباہی پھیلا دیتے ہیں۔
ہلاکتوں اور نقصانات کی تفصیل
طالبان انتظامیہ کے مطابق ہلاکتوں کی تعداد 1457 تک پہنچ گئی ہے۔ ان میں بڑی تعداد بچوں اور خواتین کی ہے۔
زخمیوں کی تعداد: 3394
تباہ شدہ مکانات: 6700 سے زائد
سب سے زیادہ متاثرہ علاقے: کنڑ، ننگرہار اور لغمان صوبے
کنڑ کے بعض دیہات ایسے ہیں جہاں پورے کے پورے گھرانے صفحہ ہستی سے مٹ گئے۔ زندہ بچ جانے والے لوگ ملبے میں اپنے پیاروں کی لاشیں ڈھونڈتے رہے، بانس اور رسی سے بنی چارپائیوں پر انہیں اٹھاتے اور کدالوں سے قبریں کھودتے رہے۔
سرچ اینڈ ریسکیو آپریشنز
افغانستان کی فوج نے کمانڈوز کو ہیلی کاپٹروں کے ذریعے متاثرہ علاقوں میں اتارا، خاص طور پر ان جگہوں پر جہاں ہیلی کاپٹر لینڈنگ ممکن نہیں تھی۔ کمانڈوز کا مقصد زخمیوں کو محفوظ مقامات تک پہنچانا اور ملبے تلے دبے افراد کو زندہ نکالنا تھا۔
امدادی تنظیموں نے کہا ہے کہ یہ وقت کے خلاف دوڑ ہے۔ جھٹکوں کے بعد پہاڑوں سے گرنے والے پتھروں نے رسائی کو مزید مشکل بنا دیا۔ کئی دیہات مکمل طور پر کٹ گئے ہیں، اور خوف کے باعث متاثرہ خاندان کھلے آسمان تلے راتیں گزارنے پر مجبور ہیں۔
اقوام متحدہ اور عالمی اداروں کی وارننگ
ورلڈ فوڈ پروگرام (WFP) نے سخت وارننگ دی ہے کہ متاثرین کے لیے خوراک کا ذخیرہ صرف چار ہفتوں کا بچا ہے۔ افغانستان میں ڈبلیو ایف پی کے سربراہ جان آئلیئف کے مطابق:
“چار ہفتے تو بنیادی ضروریات پوری کرنے کے لیے بھی ناکافی ہیں، متاثرین کو دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کی بات تو دور کی ہے۔”
اقوام متحدہ کے دفتر برائے رابطہ انسانی امور (OCHA) نے بھی کہا کہ زمین کی غیر مستحکم صورتحال اور مسلسل بارش نے خطرہ مزید بڑھا دیا ہے۔
غیر قانونی افغان باشندوں کے خلاف آپریشن: یکم ستمبر سے ملک گیر کریک ڈاؤن کا آغاز
افغان مہاجرین کا بحران اور پاکستان پر دباؤ
زلزلے کے ساتھ ساتھ ایک اور انسانی المیہ یہ ہے کہ ہزاروں کی تعداد میں پاکستان سے افغانوں کی بے دخلی بھی جا ری ہے۔
2023 سے اب تک ملک چھوڑنے پر مجبور افغان: 12 لاکھ+
2025 میں واپس جانے والے افغان: 4 لاکھ 43 ہزار+
چمن بارڈر حکام کے مطابق روزانہ 250 سے 300 خاندان واپس جا رہے ہیں۔ طورخم پر صرف ایک دن میں 6300 پی او آر کارڈ ہولڈرز واپس گئے۔
اقوام متحدہ کے مہاجرین کے سربراہ نے پاکستان سے اپیل کی ہے کہ پاکستان سے افغانوں کی بے دخلی عارضی طور پر روک دی جائے کیونکہ وہ انہی سرحدی علاقوں میں واپس بھیجے جا رہے ہیں جو زلزلے سے تباہ ہو چکے ہیں۔

متاثرین کی حالت زار
متاثرہ علاقوں میں زندہ بچ جانے والے نہ صرف اپنے پیاروں کو کھو بیٹھے ہیں بلکہ بنیادی ضروریات سے بھی محروم ہیں۔
پانی اور خوراک کی کمی شدید ہے۔
لوگ بارش کے باعث کچے گھروں میں واپس جانے سے ڈر رہے ہیں۔
کھلے آسمان تلے خاندان زمین پر بیٹھے ہیں، نہ کمبل ہیں نہ پناہ گاہ۔
ایک متاثرہ شخص نے روتے ہوئے کہا:
“ہمارے پاس اب کچھ نہیں بچا، نہ گھر ہے نہ کھانا۔ ہم صرف اپنے بچوں کو زندہ رکھنے کی دعا کر سکتے ہیں۔”
سیاسی و علاقائی مضمرات
یہ سانحہ ایک ایسے وقت میں آیا ہے جب افغانستان پہلے ہی شدید معاشی بحران، طالبان حکومت کی عالمی تنہائی اور مہاجرین کے بڑے بحران سے دوچار ہے۔ زلزلے نے اس نازک صورتحال کو مزید سنگین بنا دیا ہے۔
پاکستان کے لیے بھی یہ صورتحال پیچیدہ ہے، کیونکہ ایک طرف وہ اپنے وسائل کی کمی کے باعث مہاجرین کی واپسی پر زور دے رہا ہے اور دوسری طرف عالمی برادری انسانی بنیادوں پر اپیل کر رہی ہے کہ پاکستان سے افغانوں کی بے دخلی کو کچھ وقت کے لیے موئخر کیا جائے۔
ماہرین کا تجزیہ
ماہرین کے مطابق افغانستان جیسے ملک میں جہاں انفراسٹرکچر کمزور اور ادارے ناتواں ہیں، وہاں قدرتی آفات ہمیشہ بڑے المیوں میں بدل جاتی ہیں۔ بار بار آنے والے زلزلے اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ خطے میں مضبوط ڈیزاسٹر مینجمنٹ سسٹم کی اشد ضرورت ہے۔
افغانستان حالیہ زلزلے کے بعد ایک بار پھر انسانی بحران کے دہانے پر کھڑا ہے۔ ملبے تلے دبے زندہ افراد کو بچانے کے لیے وقت تیزی سے ختم ہو رہا ہے جبکہ خوراک، پانی اور پناہ کی کمی متاثرین کے لیے نئی آزمائش ہے۔
اگر عالمی برادری نے فوری طور پر فنڈنگ اور امداد فراہم نہ کی تو ہلاکتوں میں اضافہ اور(afghan refugees in pakistan) مہاجرین کے بحران میں شدت ناگزیر ہے۔ یہ لمحہ نہ صرف افغان عوام بلکہ پورے خطے کے لیے ایک بڑی آزمائش ہے۔
The UN refugee chief calls on Pakistan to pause its mass expulsions of Afghan refugees after an earthquake in eastern Afghanistan killed nearly 1,500. pic.twitter.com/fWnialUdTS
— Al Arabiya English (@AlArabiya_Eng) September 3, 2025