علی امین گنڈاپور کی عمران خان سے ملاقات کے بعد اہم بیان، استعفے، کابینہ میں ردوبدل اور پارٹی تقسیم پر کھلا اعتراف
پشاور — خیبر پختونخوا کے وزیرِاعلیٰ علی امین گنڈاپور نے بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان سے طویل وقفے کے بعد ملاقات کی اور اس کے فوراً بعد ایک ویڈیو پیغام جاری کیا جس نے پارٹی کے اندرونی حالات پر کئی سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ گنڈاپور نے اپنے پیغام میں اعتراف کیا کہ پارٹی شدید تقسیم کا شکار ہے اور بعض وزراء کے استعفے اسی پس منظر میں سامنے آئے ہیں۔
پانچ چھ ماہ بعد علی امین گنڈاپور کی عمران خان سے ملاقات
علی امین گنڈاپور نے کہا کہ یہ ملاقات تقریباً پانچ چھ ماہ بعد ممکن ہوئی۔ ان کا کہنا تھا کہ پچھلی ملاقات میں کابینہ میں ردوبدل اور حکومتی کارکردگی بہتر بنانے پر بات ہوئی تھی لیکن چونکہ بجٹ قریب تھا، اس لیے فیصلہ کیا گیا کہ بجٹ کے بعد ہی کسی قسم کی تبدیلی عمل میں لائی جائے۔
گنڈاپور کے مطابق:
"میں نے عمران خان کو بتایا تھا کہ کابینہ میں ردوبدل بجٹ کے بعد کریں گے۔ بعض اراکین کے نام اس پروپوزل میں شامل تھے، لہٰذا فیصل ترکئی اور عاقب خان نے آج استعفیٰ دیا۔”
یہ بیان اس تاثر کو تقویت دیتا ہے کہ پارٹی کے اندر ناراضگی اور دباؤ کا ماحول موجود تھا جس کے نتیجے میں استعفے دیے گئے۔
کابینہ میں ردوبدل کی ضرورت کیوں؟
خیبر پختونخوا حکومت میں کئی ماہ سے کارکردگی اور پالیسیوں کے حوالے سے سوالات اٹھ رہے تھے۔ وزیرِاعلیٰ نے اسد قیصر اور شہرام ترکئی سے بھی کابینہ میں تبدیلی کے معاملات پر مشاورت کی تھی۔ ان کے مطابق حکومتی کارکردگی بہتر بنانے اور پارٹی کو مضبوط رکھنے کے لیے نئی ٹیم کی ضرورت تھی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ بجٹ کے بعد تبدیلیوں کی تاخیر نے اختلافات کو مزید بڑھا دیا۔ اگر یہ معاملہ بروقت حل کر لیا جاتا تو استعفوں کی نوبت شاید نہ آتی۔
علیمہ خان کے بیان پر مؤقف
گزشتہ دنوں پی ٹی آئی کی بانی رکن اور عمران خان کی ہمشیرہ علیمہ خان کے بیانات نے سیاسی ماحول کو مزید گرما دیا تھا۔ علی امین گنڈاپور نے اس پر ردعمل دیتے ہوئے کہا:
"علیمہ خان نے آج جو باتیں کی ہیں اس پر صرف یہ کہتا ہوں کہ عمران خان میرا لیڈر ہے۔”
یہ جملہ دراصل اس تاثر کو ختم کرنے کے لیے کہا گیا کہ پارٹی میں قیادت پر سوال اٹھایا جا رہا ہے۔ تاہم مبصرین کے نزدیک یہ ردعمل اس بات کا اشارہ ہے کہ عمران خان کی شخصیت اب بھی گنڈاپور کے لیے سب سے بڑی اتھارٹی ہے اور وہ کسی صورت قیادت کے متبادل کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔

شکایات اور اندرونی سیاست
وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کی عمران خان سے ملاقات کے بعد اپنے بیان میں واضح کہا کہ انہوں نے عمران خان کو کسی کی شکایت نہیں لگائی کیونکہ شکایتیں "کمزور اور منافق لوگ کرتے ہیں”۔ ان کا مؤقف تھا کہ ان کا کام صرف سچ اور حق بات اپنے قائد تک پہنچانا ہے۔
یہ الفاظ بظاہر مضبوط موقف کی علامت ہیں لیکن ساتھ ہی یہ پارٹی کے اندر موجود "شکایتی سیاست” کی نشاندہی بھی کرتے ہیں جس نے اختلافات کو مزید گہرا کیا ہے۔
سینئر صحافی اعجاز احمد سے عمران خان کی بدسلوکی کیخلاف قومی اسمبلی میں قرارداد منظور
پارٹی میں تقسیم کا اعتراف
سب سے اہم نکتہ علی امین گنڈاپور کی عمران خان سے ملاقات کے بعد یہ اعتراف کرنا ہے کہ:
"پارٹی میں بہت بڑی تقسیم آچکی ہے۔”
یہ بیان پہلی بار کسی اعلیٰ سطحی رہنما نے اس واضح انداز میں دیا ہے۔ اب تک پی ٹی آئی کے حلقوں میں اختلافات کی خبریں سامنے آتی رہی ہیں لیکن قیادت اکثر ان کی تردید کرتی رہی۔ گنڈاپور کے اس اعتراف نے واضح کر دیا ہے کہ اختلافات اب اس نہج پر پہنچ چکے ہیں جہاں انہیں چھپانا ممکن نہیں رہا۔
خیبر پختونخوا کی سیاست پر اثرات
خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کی حکومت 2013 سے جاری ہے اور اس صوبے کو پارٹی کا گڑھ سمجھا جاتا ہے۔ اگر یہاں اختلافات اور استعفوں کا سلسلہ بڑھتا گیا تو نہ صرف صوبائی حکومت کمزور ہوگی بلکہ مرکز میں بھی پی ٹی آئی کی سیاست کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔
سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق:
کابینہ میں بار بار ردوبدل حکومت کی پالیسیوں پر منفی اثر ڈال سکتا ہے۔
استعفوں کا سلسلہ اگر مزید پھیلا تو حکومت کی ساکھ متاثر ہوگی۔
پارٹی کی اندرونی تقسیم آئندہ انتخابات پر براہِ راست اثر ڈالے گی۔

عمران خان اور علی امین گنڈاپور کا تعلق
علی امین گنڈاپور(ali amin gandapur) کو عمران خان کا قریبی ساتھی سمجھا جاتا ہے۔ وہ ہمیشہ اپنے بیباک انداز اور سخت مؤقف کی وجہ سے خبروں میں رہتے ہیں۔ پارٹی کے اندر ان کا اثر و رسوخ نمایاں ہے اور یہی وجہ ہے کہ ان کے بیانات کو غیر معمولی اہمیت دی جاتی ہے۔
ان کے حالیہ الفاظ "عمران خان میرا لیڈر ہے” اس بات کا اظہار ہیں کہ وہ ابھی تک مکمل طور پر عمران خان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ لیکن ساتھ ہی یہ اعتراف کہ پارٹی تقسیم کا شکار ہے، عمران خان کی قیادت کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔
سیاسی مبصرین کی رائے
بعض مبصرین کے مطابق علی امین گنڈاپور کی عمران خان سے ملاقات کے بعد کا بیان دراصل پارٹی کے اندر اختلافات کو عوام کے سامنے کھولنے کے مترادف ہے، جس کا فائدہ مخالف جماعتوں کو ہوگا۔
کچھ کے نزدیک یہ ایک "Damage Control” حکمتِ عملی بھی ہے تاکہ استعفوں اور اختلافات کو شفافیت کے ساتھ پیش کیا جا سکے اور قیادت کو ذمہ دار نہ ٹھہرایا جائے۔
جبکہ ایک طبقہ یہ سمجھتا ہے کہ پارٹی کے اندرونی مسائل کو اس سطح پر لانا دراصل عمران خان پر دباؤ بڑھانے کی کوشش ہے تاکہ وہ جلد فیصلے کریں۔
مستقبل کے امکانات
پی ٹی آئی کے لیے آئندہ دن انتہائی اہم ہیں۔
اگر عمران خان اور علی امین گنڈاپور پارٹی کو متحد رکھنے میں کامیاب ہو گئے تو یہ بحران وقتی ثابت ہوگا۔
اگر استعفوں کا سلسلہ بڑھا اور مزید اختلافات کھل کر سامنے آئے تو پارٹی کو صوبائی حکومت بچانا مشکل ہو سکتا ہے۔
علیمہ خان کے بیانات، گنڈاپور کے اعترافات اور دیگر رہنماؤں کی ناراضگیاں آئندہ انتخابات میں پی ٹی آئی کی کارکردگی کے لیے بڑا امتحان بن سکتی ہیں۔
علی امین گنڈاپور کی عمران خان سے ملاقات کے بعد تازہ ترین ویڈیو پیغام نے یہ بات بالکل واضح کر دی ہے کہ پاکستان تحریک انصاف اس وقت شدید اندرونی خلفشار کا شکار ہے۔ کابینہ میں ردوبدل، استعفے اور پارٹی کی تقسیم کے اشارے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ قیادت کو فوری اور سخت فیصلے کرنے ہوں گے۔ عمران خان کے لیے یہ ایک امتحان کی گھڑی ہے کہ وہ اپنی جماعت کو متحد رکھ پاتے ہیں یا نہیں۔ اگر اس وقت اختلافات کو ختم نہ کیا گیا تو نہ صرف خیبر پختونخوا حکومت خطرے میں پڑ سکتی ہے بلکہ قومی سطح پر پی ٹی آئی کی سیاست کو بھی ناقابلِ تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔