کالا باغ ڈیم منصوبہ اور خیبرپختونخوا میں سیلابی تباہ کاریاں، علی امین گنڈاپور کا تفصیلی مؤقف، صوبوں کے تحفظات ختم کرکے قوم کے فائدے کیلئے ڈیم بنانا چاہیے
پشاور : — وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے ملک کے اہم ترین اور متنازعہ کالا باغ ڈیم منصوبہ کی بھرپور حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کو صوبائیت اور ذاتی اختلافات کی سیاست سے نکل کر قومی مفاد کو مقدم رکھنا ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر صوبوں کے تحفظات دور کر دیے جائیں تو یہ منصوبہ پاکستان کے مستقبل کے لیے زندگی اور موت کی حیثیت رکھتا ہے۔
علی امین گنڈاپور نے اپنے بیان میں کہا کہ:
"صوبائیت کے چکر میں پورے پاکستان کو نقصان نہیں پہنچا سکتا، ملک کے اجتماعی مفاد کو پیچھے نہیں دھکیلا جاسکتا۔ ہمیں سب کو مطمئن کر کے مستقبل کی نسلوں کے لیے کالا باغ ڈیم منصوبہ کو تعمیر ہونا ہوگا۔”
کالا باغ ڈیم منصوبہ ہمارے ملک اور بچوں کے لیے ضروری ہے، اس پر کسی بھی قسم کی سیاست نہیں ہونی چاہیے، ہم سب کو اس میں اپنا حصہ ڈالنا ہوگا ورنہ یا تو ہمارے ملک میں سیلاب ہو گا یاپھر خشک سالی
یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب ملک موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث شدید بارشوں اور سیلابی تباہ کاریوں کا سامنا کر رہا ہے۔ وزیر اعلیٰ کے مطابق پاکستان کے آبی وسائل کے مؤثر استعمال اور توانائی کے بحران کے حل کے لیے کالا باغ ڈیم جیسے منصوبے ناگزیر ہو چکے ہیں۔
سیلابی تباہ کاریاں — خیبرپختونخوا سب سے زیادہ متاثر
وزیر اعلیٰ نے سینئر صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو میں حالیہ سیلابی صورتحال پر بھی تفصیلی بریفنگ دی۔ ان کے مطابق مالاکنڈ اور ہزارہ ڈویژن میں کلاؤڈ برسٹ اور مسلسل بارشوں کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصان ہوا ہے۔
سب سے زیادہ متاثرہ اضلاع: بونیر، شانگلہ، سوات، بٹگرام، باجوڑ اور صوابی
اموات: 411 افراد جاں بحق
زخمی: 132 افراد
لاپتا: 12 افراد (تلاش جاری)
متاثرہ خاندان: 12,500 سے زائد
اسی طرح 571 گھر مکمل طور پر تباہ جبکہ 1983 گھروں کو جزوی نقصان پہنچا۔ دکانوں کی تعداد جو متاثر ہوئیں تقریباً 1996 ہے۔
بنیادی ڈھانچے کو شدید نقصان
ریلیف رپورٹ کے مطابق:
413 سڑکیں اور 72 پل تباہ ہوئے۔
589 سرکاری عمارتیں متاثر ہوئیں۔
بجلی کے 99 فیڈرز متاثر ہوئے جس سے بڑے پیمانے پر بجلی کی فراہمی معطل رہی۔
وزیراعلیٰ نے بتایا کہ صوبائی حکومت کا ایک ہیلی کاپٹر بھی کریش ہوا جس میں پانچ اہلکار شہید ہوئے۔
دریاؤں میں اونچے درجے کا سیلاب: پنجاب میں تباہ کاریاں، لاہور میں پانی داخل، 20 افراد جاں بحق
ریسکیو اور ریلیف آپریشن
علی امین گنڈاپور نے کہا کہ ضلعی انتظامیہ اور ریسکیو اداروں نے بروقت کارروائی کی جس کے نتیجے میں 6700 افراد کو زندہ بچا لیا گیا۔
2500 ریسکیو اہلکار اور 1000 سول ڈیفنس کے رضاکار تعینات کیے گئے۔
پاک آرمی کے 3 یونٹس اور 5 ہیلی کاپٹرز نے ریلیف آپریشن میں حصہ لیا۔
176 گاڑیاں (ایمبولینسز، فائرفائٹرز، کشتیاں وغیرہ) فوری طور پر متاثرہ علاقوں میں بھیجی گئیں۔
سڑکوں اور پلوں کی بحالی کے لیے 200 ہیوی مشینیں تعینات کی گئیں۔
طبی سہولیات کے لیے میڈیکل کیمپس اور 4 موبائل ہسپتال قائم کیے گئے۔

متاثرین کے لیے اقدامات
اب تک ڈھائی لاکھ افراد کو تیار کھانا فراہم کیا گیا۔
15 واٹر فلٹریشن پلانٹس نصب کیے گئے تاکہ پینے کے صاف پانی کی فراہمی یقینی ہو سکے۔
اموات کے معاوضے کو 10 لاکھ سے بڑھا کر 20 لاکھ روپے فی کس کر دیا گیا۔
زخمیوں کے معاوضے کو ڈھائی لاکھ سے بڑھا کر 5 لاکھ روپے کر دیا گیا۔
کالا باغ ڈیم منصوبہ اور سیلاب — ایک تعلق(kala bagh dam)
وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا کے بقول اگر کالا باغ ڈیم منصوبہ جیسے بڑے منصوبے وقت پر بنا لیے جاتے تو آج سیلابی پانی سے اتنا بڑا جانی و مالی نقصان نہ ہوتا۔ پانی ذخیرہ کرنے کے لیے بڑے ڈیم ناگزیر ہیں تاکہ نہ صرف توانائی بحران پر قابو پایا جا سکے بلکہ بارشوں کے دوران آنے والے طوفانی ریلاؤں کو بھی کنٹرول کیا جا سکے۔
ماہرین کی رائے
آبی ماہرین بھی بارہا یہ کہہ چکے ہیں کہ پاکستان کو سالانہ 40 ارب ڈالر کا نقصان صرف اس لیے ہوتا ہے کیونکہ بارش اور دریائی پانی بغیر کسی ذخیرے کے سمندر میں گر جاتا ہے۔ کالا باغ ڈیم اس کمی کو پورا کرنے کا ایک مؤثر حل ہو سکتا ہے۔
مستقبل کے اقدامات
وزیراعلیٰ نے کہا کہ خیبرپختونخوا حکومت متاثرین کی بحالی اور بنیادی ڈھانچے کی تعمیر نو کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائے گی۔ انہوں نے زور دیا کہ وفاقی حکومت کو بھی اس موقع پر آگے بڑھ کر کردار ادا کرنا ہوگا کیونکہ یہ صرف ایک صوبے کا نہیں بلکہ پورے ملک کا مسئلہ ہے۔
علی امین گنڈاپور کے یہ بیانات ایک طرف کالا باغ ڈیم منصوبہ کے قومی سطح پر دوبارہ موضوع بحث بننے کی نشاندہی کرتے ہیں تو دوسری طرف یہ حقیقت بھی سامنے لاتے ہیں کہ اگر پاکستان نے بروقت بڑے آبی ذخائر تعمیر نہ کیے تو سیلابی تباہ کاریاں مستقبل میں مزید شدت اختیار کر جائیں گی۔