علیمہ خان کے بیٹے شیر شاہ خان گرفتار، عمران خان فیملی پر کریک ڈاؤن تیز
علیمہ خان کے بیٹے کی گرفتاری: 9 مئی کے واقعات کا دائرہ مزید وسیع
پاکستان کی حالیہ سیاسی فضا ایک بار پھر ہلچل کا شکار ہو چکی ہے، جب بانی تحریک انصاف عمران خان کی بہن علیمہ خان کے دوسرے بیٹے شیر شاہ خان کو بھی گرفتار کر لیا گیا۔ اس سے قبل ان کے بڑے بیٹے شاہ ریز عظیم کو 9 مئی کے پرتشدد واقعات کے سلسلے میں گرفتار کیا گیا تھا۔ اب دونوں بھائیوں کی گرفتاریوں نے ملکی سیاست، عدلیہ، میڈیا اور عوامی حلقوں میں ایک نئی بحث کو جنم دے دیا ہے۔
شیر شاہ خان کی گرفتاری: پراسرار انداز اور سوالات
خاندانی ذرائع کے مطابق، شیر شاہ خان کو پولیس اہلکاروں نے سادہ کپڑوں میں زبردستی گرفتار کیا۔ گاڑی کو روکا گیا، اور بظاہر بغیر کسی وارنٹ یا عدالتی حکم کے، انہیں گاڑی سے نکال کر لے جایا گیا۔ حیران کن بات یہ ہے کہ گاڑی علیمہ خان کے شوہر چلا رہے تھے، اور گرفتاری اس وقت عمل میں آئی جب فیملی ساتھ سفر کر رہی تھی۔
یہ طریقہ کار عام شہریوں کے لیے تشویش کا باعث بن رہا ہے، کیونکہ اس سے نہ صرف عدالتی عمل کی شفافیت پر سوال اٹھتے ہیں بلکہ شہری آزادیوں کے تحفظ پر بھی خدشات پیدا ہوتے ہیں۔ کیا یہ گرفتاریاں قانون کے دائرے میں ہیں یا سیاسی انتقامی کارروائی کا تسلسل؟
شاہ ریز عظیم کی گرفتاری اور عدالتی کارروائی
اس سے قبل شاہ ریز عظیم، جو کہ علیمہ خان کا بڑا بیٹا ہے اور ایک بین الاقوامی ایتھلیٹ کے طور پر پاکستان کی نمائندگی کر چکے ہیں، کو بھی حراست میں لیا گیا تھا۔ پولیس نے انہیں عدالت میں پیش کیا اور 30 دن کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی۔ تاہم، انسداد دہشت گردی عدالت نے 8 دن کا جسمانی ریمانڈ منظور کیا۔
دورانِ سماعت، شاہ ریز کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے عدالت کے سامنے کئی اہم نکات اٹھائے:
ملزم کو بغیر اطلاع عدالت کے احاطے میں لا کر وین میں بٹھایا گیا۔
عدالت سے درخواست کی گئی کہ شاہ ریز کو بخشی خانے میں لایا جائے، جو بعد میں عمل میں آیا۔
وکیل کے مطابق، شاہ ریز 9 مئی کے واقعات میں ملوث نہیں تھے اور وہ ان دنوں چترال میں موجود تھے۔
اس تمام صورتحال نے عدالتی عمل میں شفافیت، انصاف پسندی، اور قانونی تقاضوں پر بھی ایک بڑی بحث چھیڑ دی ہے۔
سیاسی انتقام یا قانون کا نفاذ؟
یہ سوال آج کل ہر پاکستانی کے ذہن میں گردش کر رہا ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے افراد یا ان کے رشتہ داروں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، جب کہ حکومتی حلقے اسے قانون کی بالادستی قرار دیتے ہیں۔
علیمہ خان کے بیٹوں کی گرفتاری کو کئی لوگ سیاسی انتقام سے تعبیر کر رہے ہیں، خاص طور پر اس لیے کہ:
عمران خان کی حالیہ ضمانت کے فوری بعد علیمہ خان کے گھر پر چھاپہ مارا گیا۔
اہلکار کچن سے داخل ہو کر سیدھا بیڈروم تک پہنچے، جو کہ ایک غیر معمولی اور غیراخلاقی عمل قرار دیا جا رہا ہے۔
اہلِ خانہ اور وکلاء کو کوئی پیشگی اطلاع یا لیگل نوٹس فراہم نہیں کیا گیا۔
دوسری جانب، حکومت کا مؤقف ہے کہ 9 مئی کے پرتشدد واقعات میں جو بھی ملوث پایا جائے گا، اس کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی، چاہے وہ کسی بھی سیاسی جماعت سے تعلق رکھتا ہو۔
شاہ ریز عظیم کا پس منظر: پاکستان کا عالمی سفیر
شاہ ریز عظیم صرف ایک سیاسی شخصیت کے بیٹے نہیں بلکہ ایک قومی کھلاڑی بھی ہیں، جنہوں نے عالمی سطح پر پاکستان کی نمائندگی کی ہے۔ ان کی گرفتاری سے نہ صرف انفرادی ساکھ متاثر ہوئی بلکہ عالمی میڈیا میں پاکستان کا امیج بھی داؤ پر لگ گیا ہے۔
عدالت میں ان کے وکیل نے واضح کیا کہ:
"شاہ ریز کسی بھی طرح 9 مئی کے واقعات میں ملوث نہیں تھے۔ اُنہیں 27 ماہ بعد شاملِ تفتیش کرنا حیرت انگیز ہے۔”
اگر یہ بات درست ہے تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے: کیا ہم ملکی عدالتی نظام کو اتنا کمزور ہونے دے سکتے ہیں کہ وہ سیاسی دباؤ کے تحت فیصلے کرے؟
علیمہ خان کی خاموشی اور میڈیا کی غیرجانب داری؟
علیمہ خان، جو عمومی طور پر سیاسی معاملات سے دور رہتی آئی ہیں، اب براہِ راست نشانے پر ہیں۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ پاکستان کے بڑے میڈیا چینلز نے ان گرفتاریوں کو کچھ زیادہ نمایاں انداز میں رپورٹ نہیں کیا، جو کہ میڈیا کی جانبداری پر سوالات کھڑے کرتا ہے۔
سوشل میڈیا پر البتہ عوامی ردعمل بہت شدید ہے۔ #ShahRezAzim اور #SherShahKhan کے ہیش ٹیگز ٹرینڈ کر رہے ہیں، جہاں عوام ان گرفتاریوں کو غیر آئینی اور غیر اخلاقی قرار دے رہے ہیں۔
قانونی ماہرین کی رائے
معروف قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ:
اگر کسی فرد کو 27 ماہ بعد اچانک کیس میں شامل کیا جاتا ہے، تو یہ قانونی طور پر کمزور مقدمہ بن سکتا ہے۔
گرفتاری سے قبل نوٹس دینا، عدالتی وارنٹ دکھانا اور فیملی کو اطلاع دینا لازم ہے، جو یہاں نظر انداز ہوا۔
عدالت نے جسمانی ریمانڈ دے کر تحقیقات کی گنجائش تو فراہم کی، لیکن وکیل کی دلائل نے کیس میں شکوک پیدا کیے ہیں۔
کیا عمران خان کی فیملی کو دباؤ میں لایا جا رہا ہے؟
یہ تاثر تقویت پکڑتا جا رہا ہے کہ عمران خان کے سیاسی اثر و رسوخ کو کمزور کرنے کے لیے ان کے خاندان کو ہدف بنایا جا رہا ہے۔ پہلے عمران خان کی گرفتاری، پھر شاہ محمود قریشی، اسد عمر، علی امین گنڈا پور سمیت دیگر رہنماؤں کی پکڑ دھکڑ، اور اب براہِ راست فیملی کو شاملِ تفتیش کرنا — یہ سب ایک منظم منصوبہ بندی کا حصہ لگتے ہیں۔
انصاف، قانون یا انتقام؟
پاکستانی عوام، میڈیا، عدلیہ، اور سول سوسائٹی اس وقت ایک انتہائی نازک موڑ پر کھڑے ہیں۔ اگر گرفتاریوں کا یہ سلسلہ ثبوت اور شفاف قانونی عمل کے بجائے صرف سیاسی وابستگی کی بنیاد پر جاری رہا، تو نہ صرف قانون کی بالادستی مجروح ہوگی بلکہ جمہوریت پر بھی گہرا اثر پڑے گا۔
یہ وقت ہے کہ:
- عدلیہ آزادانہ اور غیر جانبدارانہ فیصلے کرے
- میڈیا حقائق سامنے لائے، نہ کہ مخصوص بیانیے کی پیروی کرے
حکومت قانون کی پاسداری کرتے ہوئے سیاسی مخالفین کو ٹارگٹ کرنے سے گریز کرے
READ MORE FAQs.
شیر شاہ خان کو کس کیس میں گرفتار کیا گیا؟
پولیس کے مطابق انہیں 9 مئی کے واقعات میں ملوث ہونے کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔
شاہ ریز عظیم کا ریمانڈ کتنا دیا گیا؟
عدالت نے 30 روزہ ریمانڈ کی استدعا مسترد کرتے ہوئے صرف 8 روزہ جسمانی ریمانڈ دیا۔
عوامی ردعمل کیا ہے؟
پی ٹی آئی کے کارکنان اسے انتقامی کارروائی قرار دے رہے ہیں جبکہ حکومت اسے قانونی عمل کہہ رہی ہے۔


Comments 1