اندرون سندھ سرکاری اسپتال بچوں کے علاج میں شدید بحران
اندرون سندھ سرکاری اسپتالوں کی حالت زار
اندرون سندھ سرکاری اسپتال اس وقت شدید بدحالی کا شکار ہیں۔ اربوں روپے کے فنڈز جاری ہونے کے باوجود، دیہی علاقوں کے یہ اسپتال بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ بچے، جو غذائی کمی اور خسرہ جیسے امراض میں مبتلا ہیں، ان کے علاج کے لیے مناسب سہولیات موجود نہیں۔
اندرون سندھ سرکاری اسپتال کا منظر یہ ہے کہ غریب والدین اپنے بچوں کی جان بچانے کے لیے اپنے مویشی بیچنے پر مجبور ہیں۔ یہ ایک دل دہلا دینے والی حقیقت ہے جو سندھ کے صحت کے نظام پر کئی سوالات اٹھاتی ہے۔
کنری عمرکوٹ کا دردناک واقعہ
کنری ضلع عمرکوٹ کے رہائشی امتیاز گشکوری نے بتایا کہ اس کے 10 ماہ کے بیٹے غلام محمد کی حالت خراب ہو گئی تھی۔ بچے کو شدید غذائی کمی اور خسرہ وائرس لاحق تھا۔
پیسوں کی کمی کے باعث علاج ممکن نہ تھا، اس لیے باپ نے اپنی بکری فروخت کی تاکہ اپنے بچے کی زندگی بچا سکے۔
وہ مٹھی اور کنری کے اسپتالوں کے چکر لگاتا رہا، مگر اندرون سندھ سرکاری اسپتال میں نہ دوائیں تھیں، نہ ماہر ڈاکٹر۔ بچے کی حالت بگڑتی گئی۔ آخرکار، وہ اپنے بیٹے کو میرپور خاص کے ایک نجی اسپتال لے گیا۔
وزیراعلیٰ سندھ کی مداخلت اور بروقت کارروائی
امتیاز گشکوری نے وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کو درخواست بھیجی۔ وزیراعلیٰ نے فوری ایکشن لیتے ہوئے کمشنر میرپور خاص فیصل احمد عقیلی اور سول سرجن ڈاکٹر پیر غلام نبی جیلانی کو ہدایت دی کہ بچے کا علاج فوری کیا جائے۔
سول سرجن ڈاکٹر غلام نبی نے خود اسپتال کا دورہ کیا، ڈاکٹر عبدالمجید میمن سے مشاورت کی، اور بچے کے علاج کی نگرانی کی۔ اس تیز کارروائی کے نتیجے میں بچہ صحت یاب ہوا۔
یہ مثال ثابت کرتی ہے کہ جب توجہ دی جائے تو نتائج ممکن ہیں، مگر سوال باقی ہے — آخر اندرون سندھ سرکاری اسپتال مسلسل کیوں ناکام ہو رہے ہیں؟
دیہی علاقوں میں ماہر اطفال کی کمی
والد نے حکومت سے اپیل کی کہ کنری، عمرکوٹ اور دیگر دیہی علاقوں میں فوری طور پر ماہر اطفال تعینات کیے جائیں۔ ان علاقوں کے بچے شدید غذائی کمی کا شکار ہیں۔
اندرون سندھ سرکاری اسپتال میں ماہر ڈاکٹروں کی کمی اتنی سنگین ہے کہ عام بخار اور خسرہ کا علاج بھی مؤثر انداز میں ممکن نہیں۔
ڈاکٹر غلام نبی کا مؤقف
سول سرجن ڈاکٹر غلام نبی جیلانی کا کہنا ہے کہ بچے کو خسرہ کے ساتھ ساتھ غذائی قلت کی شدید پیچیدگیاں لاحق تھیں۔ غربت کی وجہ سے بچہ مناسب خوراک نہیں پا رہا تھا، جس کے باعث خسرہ کی شدت بڑھ گئی۔
انہوں نے بتایا کہ تعلقہ اسپتال کنری کے غذائی مرکز میں بچے کو او ٹی پی پروگرام کے تحت خوراکی علاج فراہم کیا گیا۔
ڈاکٹر غلام نبی نے خبردار کیا کہ سرد موسم میں غذائی کمی کے شکار بچے خسرہ وائرس سے زیادہ متاثر ہو سکتے ہیں، اس لیے والدین اپنے بچوں کو لازمی حفاظتی ویکسین لگوائیں۔
سرد موسم اور بڑھتے ہوئے خطرات
سردی کے آغاز کے ساتھ اندرون سندھ کے علاقے خطرناک صورتحال سے دوچار ہیں۔ غذائی کمی کے شکار بچے نمونیہ، خسرہ اور دیگر بیماریوں میں مبتلا ہو رہے ہیں۔
ڈاکٹر غلام نبی کے مطابق، "مائیں اگر بچوں کی خوراک پر توجہ نہ دیں تو خسرہ اور نمونیہ جیسے امراض جان لیوا ثابت ہو سکتے ہیں۔”
اندرون سندھ سرکاری اسپتال کو ایسے حالات کے لیے تیار ہونا چاہیے، مگر بدقسمتی سے بیشتر اسپتال دوائیں، بستروں اور ماہر عملے سے خالی ہیں۔
اربوں کے بجٹ کے باوجود زبوں حالی کیوں؟
یہ ایک بڑا سوال ہے کہ آخر اربوں روپے کے فنڈز کہاں جا رہے ہیں؟ ہر سال اندرون سندھ سرکاری اسپتال کے لیے بجٹ منظور ہوتا ہے، مگر زمینی حقیقت یہ ہے کہ دیہی سندھ کے بیشتر اسپتالوں میں صاف پانی، بجلی اور ایمبولینس کی سہولت بھی ناپید ہے۔
امید کی کرن: حکومت کی ذمہ داری
اگر حکومت سنجیدگی سے اندرون سندھ کے اسپتالوں کی حالت بہتر بنانا چاہے، تو یہ ناممکن نہیں۔ دیہی سندھ کے لاکھوں بچے بہتر علاج کے منتظر ہیں۔
ڈاکٹر غلام نبی جیسے افسران کی محنت قابلِ تعریف ہے، مگر یہ انفرادی کوششیں کافی نہیں۔ ایک جامع حکمتِ عملی، بجٹ کی شفاف تقسیم، اور ماہر عملے کی تعیناتی ہی اندرون سندھ کے صحتی بحران کو کم کر سکتی ہے۔
سندھ میں ڈینگی کی سنگین صورتحال، اکتوبر سے اب تک 13 اموات
اندرون سندھ سرکاری اسپتال صرف عمارتوں کا نام نہیں ہونے چاہییں — یہ وہ مراکز ہیں جہاں غریب ماں باپ اپنی آخری امید لے کر آتے ہیں۔
یہ وقت ہے کہ حکومت، محکمہ صحت اور سماجی تنظیمیں مل کر ان اسپتالوں کو فعال بنائیں، تاکہ کوئی اور باپ اپنے بچے کے علاج کے لیے بکری فروخت نہ کرے۔
اندرون سندھ سرکاری اسپتال عوام کی زندگیوں سے جڑے ہیں، اور ان کی بحالی دراصل مستقبل کی نسلوں کی حفاظت ہے۔










Comments 1