انسداد پولیو فنڈنگ میں کمی 2025: پاکستان کو عالمی امداد 20 فیصد تک کم ملنے لگی
عالمی فنڈنگ میں کمی اور پاکستان میں انسداد پولیو مہم: ایک نازک موڑ پر کھڑی قومی مہم
پاکستان میں پولیو کے خاتمے کی کوششیں ایک بار پھر بڑے چیلنج سے دوچار ہیں۔ جہاں ملک کئی دہائیوں سے پولیو وائرس کے خاتمے کے لیے کوشاں ہے، وہیں اب بین الاقوامی مالیاتی تعاون میں کمی نے ان کوششوں کو شدید خطرے میں ڈال دیا ہے۔ خاص طور پر امریکا کی جانب سے عالمی اداروں کو فنڈنگ میں کٹوتی سے انسداد پولیو مہم کی مالی بنیادیں متزلزل ہونے لگی ہیں، اور اس کے اثرات واضح طور پر سامنے آنے لگے ہیں۔
پس منظر: پاکستان میں پولیو کا مسئلہ اور عالمی مدد
پاکستان دنیا کے ان چند ممالک میں سے ایک ہے جہاں اب بھی پولیو وائرس مکمل طور پر ختم نہیں ہو سکا۔ ملک میں ہر سال لاکھوں بچوں کو حفاظتی قطروں کے ذریعے پولیو سے بچاؤ کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس مہم کی کامیابی میں مقامی محنت کے ساتھ ساتھ عالمی شراکت داری کلیدی کردار ادا کرتی آئی ہے۔
پاکستان کو پولیو کے خاتمے کے لیے سب سے بڑی مالی معاونت گلوبل پولیو ایریڈیکیشن انیشی ایٹو (GPEI) کے ذریعے ملتی ہے، جس کا ہیڈکوارٹر جنیوا میں ہے۔ اس فنڈنگ کا تقریباً 80 فیصد حصہ امریکی ادارے یو ایس ایڈ (USAID)، یونیسیف (UNICEF)، عالمی ادارہ صحت (WHO)، بل اینڈ ملنڈا گیٹس فاؤنڈیشن اور دیگر بین الاقوامی تنظیموں کی جانب سے فراہم کیا جاتا ہے۔
پاکستان میں سالانہ تقریباً 250 ملین امریکی ڈالر (یعنی 25 کروڑ ڈالر) انسداد پولیو مہم پر خرچ کیے جاتے ہیں، جو کہ ایک بڑا بجٹ ہے اور اس میں عالمی فنڈنگ کا کردار نہایت اہم ہے۔
فنڈنگ میں 20 فیصد کمی: ایک بڑا دھچکا
حالیہ رپورٹس کے مطابق پاکستان کو عالمی انسداد پولیو مہم کے فنڈز میں 20 فیصد تک کی کمی کا سامنا ہے۔ امریکا کی جانب سے اقوام متحدہ اور اس سے وابستہ اداروں کی فنڈنگ میں مجموعی کمی کا براہِ راست اثر پولیو پروگرام پر بھی پڑا ہے۔
یہ کمی اس وقت سامنے آئی ہے جب پاکستان وائرس کے خاتمے کی آخری جنگ لڑ رہا ہے۔ موجودہ حالات میں فنڈنگ میں کمی ایک حساس مرحلے پر آ کر انسداد پولیو کی کوششوں کے لیے بڑا خطرہ بن چکی ہے۔
پاکستانی حکومت کا ردعمل: حکمت عملی میں تبدیلی کا فیصلہ
عالمی فنڈنگ میں کمی کے بعد پاکستان کی وزارتِ صحت نے فوری طور پر انسداد پولیو مہم کی حکمت عملی میں تبدیلی کا فیصلہ کیا ہے تاکہ دستیاب وسائل کو مؤثر طریقے سے استعمال کیا جا سکے۔
حکومت کے اہم فیصلے درج ذیل ہیں:
انسداد پولیو مہم کو پانچ دن کے بجائے تین دن تک محدود کیا جائے گا۔
ضلعی اور تحصیل سطح پر کام کرنے والے عملے کی تعداد کم کی جائے گی۔
مہمات کی تعداد اور دائرہ کار میں تبدیلی لائی جائے گی تاکہ لاگت کو کنٹرول کیا جا سکے۔
مزید بین الاقوامی اور مقامی شراکت داروں سے مالی تعاون حاصل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
وفاقی وزیرِ صحت کا مؤقف: “ہمارے پاس اب صرف ایک ہی راستہ ہے”
وفاقی وزیرِ صحت نے اس صورتحال پر سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا:
“پولیو کے خاتمے کے سوا ہمارے پاس اب کوئی دوسرا آپشن نہیں بچا۔ عالمی فنڈنگ مسلسل کم ہو رہی ہے اور پاکستان کے معاشی حالات ایسے نہیں کہ ہم یہ بوجھ خود اٹھا سکیں۔ ہمیں آئندہ ایک سال میں ہر حال میں پولیو کا مکمل خاتمہ کرنا ہوگا۔”
ان کا یہ بیان اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ موجودہ مالیاتی دباؤ نے انسداد پولیو مہم کو ایک فیصلہ کن مرحلے پر لاکھڑا کیا ہے، جہاں یا تو ہم وائرس کو مکمل طور پر ختم کر دیں گے، یا یہ بیماری ایک بار پھر سر اٹھا سکتی ہے۔
چیلنجز: فنڈنگ کی کمی کے اثرات اور زمینی حقائق
عالمی فنڈنگ میں کمی کا براہِ راست اثر مہم کی شدت، تعداد، اسٹاف کی تربیت، مانیٹرنگ، اور حفاظتی اقدامات پر پڑتا ہے۔
متوقع اثرات:
بچوں تک رسائی میں کمی
دور دراز علاقوں میں مہم کی ناکامی
فیلڈ ورکرز کی تربیت اور تنخواہوں میں مشکلات
ویری فیکیشن اور مانیٹرنگ کا کمزور ہونا
عوامی آگاہی مہمات کی محدودیت
یہ سب عوامل مجموعی طور پر مہم کی مؤثریت کو متاثر کر سکتے ہیں، جو کہ وائرس کے دوبارہ پھیلنے کا سبب بن سکتا ہے۔
بین الاقوامی برادری سے اپیل اور متبادل اقدامات
پاکستان کی حکومت نے اس صورتحال میں بین الاقوامی شراکت داروں سے اپیل کی ہے کہ وہ اس نازک مرحلے پر پاکستان کا ساتھ نہ چھوڑیں۔ خصوصی طور پر یو ایس ایڈ، گیٹس فاؤنڈیشن، اور سعودی عرب و دیگر دوست ممالک سے تعاون بڑھانے پر زور دیا جا رہا ہے۔
مزید برآں، پاکستان کوشش کر رہا ہے کہ:
مقامی نجی اداروں کو اس مہم کا حصہ بنایا جائے،
کارپوریٹ سوشل ریسپانسبلٹی (CSR) فنڈز سے مدد حاصل کی جائے،
مائیکرو فنڈنگ اور عوامی عطیات کے ذرائع کو بھی فعال کیا جائے۔
پاکستان کی کامیابیاں: امید کی کرن
رغم کے باوجود، پاکستان کی انسداد پولیو مہم نے کئی مثبت نتائج بھی دیے ہیں:
2023 اور 2024 میں پولیو کیسز کی تعداد میں نمایاں کمی آئی۔
مہمات کی کامیابی کا تناسب بہتر ہوا۔
فیلڈ ورکرز کو بااختیار بنانے اور مقامی شمولیت بڑھانے کے اقدامات مؤثر رہے۔
یہ کامیابیاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ اگر حکومت، عوام، اور عالمی برادری مشترکہ طور پر کام کرے، تو پولیو کا مکمل خاتمہ ممکن ہے۔
یہ وقت فیصلہ کن ہے
پاکستان میں انسداد پولیو مہم اس وقت ایک نازک دوراہے پر کھڑی ہے۔ عالمی فنڈنگ میں کمی نے ایک سنجیدہ خطرے کو جنم دیا ہے، لیکن یہ بحران ایک موقع بھی بن سکتا ہے۔
اگر حکومت مؤثر اور ہدف پر مبنی حکمت عملی اپنائے،
اگر عوامی شراکت کو بڑھایا جائے،
اور اگر بین الاقوامی شراکت دار اپنا کردار برقرار رکھیں،
تو پاکستان 2026 کے اختتام تک پولیو سے پاک ملک بن سکتا ہے۔
لیکن اگر ہم نے اس موقع کو ضائع کیا، تو وائرس دوبارہ ابھر سکتا ہے، اور اس وقت ہمارے پاس وسائل بھی کم ہوں گے اور وقت بھی۔
پاکستانی حکومت، فیلڈ ورکرز، والدین، اور عالمی برادری — سب کو مل کر یہ آخری جنگ جیتنی ہے، کیونکہ پولیو کے خلاف یہ واقعی "اب یا کبھی نہیں" کا مرحلہ ہے۔












Comments 1