قومی اسمبلی نے آرمی ایکٹ ترمیمی بل منظور کرلیا، آرمی چیف کو چیف آف ڈیفنس فورسز کا نیا عہدہ حاصل
قومی اسمبلی نے 27ویں آئینی ترمیم کے بعد آرمی ایکٹ ترمیمی بل 2025 کثرتِ رائے سے منظور کر لیا۔
اس نئے قانون کے تحت آرمی چیف کو اب چیف آف ڈیفنس فورسز کا اضافی عہدہ دیا گیا ہے۔ یہ تاریخی ترمیم پاکستان کی دفاعی ساخت میں ایک بڑی تبدیلی سمجھی جا رہی ہے۔
آرمی ایکٹ ترمیمی بل 2025 کی تفصیلات

مجوزہ بل کے مطابق، آرمی چیف بطور چیف آف ڈیفنس فورسز ایک نیا نوٹیفکیشن حاصل کریں گے۔
اس نوٹیفکیشن کے اجرا کے بعد آرمی چیف کی مدتِ ملازمت دوبارہ سے شروع ہو جائے گی۔
وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے ایوان میں بتایا کہ نئے آرمی ایکٹ ترمیمی بل کے تحت آرمی چیف کے اختیارات میں توسیع کی گئی ہے تاکہ فوجی ڈھانچے کی ازسرِنو تنظیم ممکن ہو سکے۔
چیف آف ڈیفنس فورسز کا نیا کردار
بل کے مطابق، آرمی چیف بطور چیف آف ڈیفنس فورسز پاک فوج کے تمام شعبوں کی ری اسٹرکچرنگ (restructuring) اور انضمام (integration) کے ذمہ دار ہوں گے۔
یہ عہدہ ایک متحد کمانڈ اسٹرکچر قائم کرے گا جو بری، فضائی اور بحری افواج کے درمیان ہم آہنگی کو فروغ دے گا۔
وزیراعظم پاکستان براہِ راست چیف آف ڈیفنس فورسز کی تقرری کریں گے، اور ان کی مدتِ ملازمت پانچ سال مقرر کی گئی ہے۔
نیشنل اسٹریٹیجک کمانڈ کی تشکیل
بل میں مزید کہا گیا ہے کہ کمانڈر نیشنل اسٹریٹیجک کمانڈ کی تقرری چیف آف ڈیفنس فورسز کی سفارش پر وزیراعظم کریں گے۔
اس کمانڈر کی مدتِ ملازمت تین سال ہوگی، تاہم ضرورت پڑنے پر مزید تین سال کے لیے توسیع دی جا سکے گی۔
یہ عہدہ پاکستان کی دفاعی حکمتِ عملی، جوہری اثاثوں کے تحفظ، اور ہنگامی دفاعی ردِعمل کے لیے نہایت اہم تصور کیا جا رہا ہے۔
چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کا خاتمہ
آرمی ایکٹ ترمیمی بل کے تحت چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کا عہدہ ختم کر دیا گیا ہے۔
اب اس کی تمام ذمہ داریاں چیف آف ڈیفنس فورسز سنبھالیں گے۔
وزیر قانون کے مطابق، اس تبدیلی کا مقصد ایک مضبوط اور یکجا عسکری قیادت قائم کرنا ہے جو تینوں افواج کے درمیان مؤثر رابطہ فراہم کرے گی۔
آرمی چیف کی مدتِ ملازمت
نئے قانون میں وضاحت کی گئی ہے کہ آرمی چیف کی بطور چیف آف ڈیفنس فورسز تقرری کی مدت پانچ سال ہوگی۔
یہ مدت اس دن سے شروع ہوگی جب وزیراعظم ان کی تقرری کا نوٹیفکیشن جاری کریں گے۔
قانون میں یہ بھی درج ہے کہ تقرری کے بعد آرمی چیف کی مدت از سر نو شروع ہوگی، یعنی وہ پہلے کے دورِ ملازمت سے الگ ایک نیا دور سنبھالیں گے۔
حکومت کا مؤقف
وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ یہ ترمیم قومی سلامتی کے تقاضوں کے مطابق کی گئی ہے۔
ان کا کہنا تھا:
“آرمی چیف اب بطور چیف آف ڈیفنس فورسز ایک متحد دفاعی قیادت فراہم کریں گے، جس سے پاکستان کی مسلح افواج میں ہم آہنگی اور فیصلہ سازی بہتر ہوگی۔”
انہوں نے مزید کہا کہ نئے نظام سے پاکستان کے دفاعی ڈھانچے میں مؤثر ربط اور تیزی آئے گی، جو علاقائی چیلنجز کے مقابلے میں انتہائی ضروری ہے۔
اپوزیشن کا ردعمل
اپوزیشن کی جانب سے اس بل پر مختلف آراء سامنے آئیں۔
کچھ ارکان نے بل کو قومی سلامتی کے تناظر میں "اہم قدم” قرار دیا، جبکہ دیگر نے مطالبہ کیا کہ اس کی مزید پارلیمانی جانچ کی جائے۔
ایک اپوزیشن رکن نے کہا:
“ہم قومی دفاع کے مضبوط ہونے کے حق میں ہیں، مگر ایسی بڑی ترامیم پر تفصیلی بحث ضروری ہے تاکہ شفافیت برقرار رہے۔”
ماہرین کا تجزیہ
دفاعی ماہرین کا کہنا ہے کہ آرمی ایکٹ ترمیمی بل پاکستان کے عسکری نظام میں ایک بڑی تبدیلی کی علامت ہے۔
یہ قدم برطانیہ اور امریکہ جیسے ممالک کے ماڈلز سے مشابہت رکھتا ہے جہاں ایک مرکزی دفاعی کمانڈ اسٹرکچر موجود ہے۔
ریٹائرڈ جنرل طلعت مسعود کے مطابق:
“چیف آف ڈیفنس فورسز کا عہدہ پاکستان کے دفاعی نظام میں ہم آہنگی پیدا کرے گا، مگر اس کے مؤثر نفاذ کے لیے ادارہ جاتی توازن برقرار رکھنا ہوگا۔”
نیا قانون کب نافذ ہوگا؟
ذرائع کے مطابق، آرمی ایکٹ ترمیمی بل 2025 کی منظوری کے بعد اب اسے سینیٹ میں پیش کیا جائے گا۔
سینیٹ سے منظوری کے بعد یہ قانون صدرِ پاکستان کے دستخط سے نافذ العمل ہو جائے گا۔
پاکستان کے دفاعی نظام پر اثرات
یہ قانون پاکستان کی دفاعی پالیسی میں ایک نئی سمت متعین کرے گا۔
ایک جانب اس سے فیصلہ سازی کے عمل میں تیزی آئے گی، تو دوسری جانب تینوں مسلح افواج — آرمی، نیوی، اور ایئر فورس — کے درمیان براہِ راست رابطہ بہتر ہوگا۔
تاہم، کچھ مبصرین نے اس بات پر زور دیا ہے کہ اس نئی ساخت کے ساتھ سول نگرانی کے نظام کو بھی مضبوط بنانا ضروری ہے تاکہ ادارہ جاتی توازن قائم رہے۔
سپریم کورٹ کے سینئر ججز جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس اطہر من اللہ مستعفی
آرمی ایکٹ ترمیمی بل 2025 کی منظوری پاکستان کے عسکری اور آئینی ڈھانچے میں ایک نئے دور کا آغاز ہے۔
اب آرمی چیف بطور چیف آف ڈیفنس فورسز نہ صرف فوج کی کمان سنبھالیں گے بلکہ دفاعی پالیسی کی تشکیل اور نفاذ میں مرکزی کردار ادا کریں گے۔
یہ ترمیم قومی سلامتی کے لیے تاریخی قدم قرار دی جا رہی ہے، جس کے اثرات آنے والے برسوں میں واضح ہوں گے۔










Comments 1