ایشیا کپ 2025 میں پاک بھارت میچ: بھارتی کپتان نے پاکستانی کپتان سے ہاتھ نہ ملایا
متحدہ عرب امارات کے دبئی انٹرنیشنل اسٹیڈیم میں جاری ایشیا کپ ٹی ٹوئنٹی 2025 کے سپر فور مرحلے کا سب سے زیادہ متوقع اور ہائی وولٹیج مقابلہ — پاکستان بمقابلہ بھارت — ایک بار پھر نہ صرف میدان میں بلکہ میدان کے باہر بھی موضوعِ بحث بن گیا۔
آج کے میچ میں ایک بار پھر بھارتی کپتان سوریا کمار یادو نے پاکستانی کپتان سلمان علی آغا سے ہاتھ نہیں ملایا، جس نے نہ صرف شائقین کو مایوس کیا بلکہ کھیل کے تقدس اور اسپورٹس مین اسپرٹ پر ایک بار پھر سوالیہ نشان لگا دیا۔
ہینڈ شیک تنازع کی تجدید
میچ سے پہلے، جب دونوں ٹیمیں ٹاس کے لیے میدان میں آئیں، تو بھارتی کپتان نے نہایت رسمی انداز میں ٹاس کے بعد نہ تو پاکستانی کپتان کی طرف دیکھا اور نہ ہی ہاتھ ملانے کی کوشش کی، حالانکہ یہ ایک روایتی عمل اور اسپورٹس مین شپ کی علامت سمجھا جاتا ہے۔
یہ پہلا موقع نہیں، بلکہ گزشتہ ہفتے بھی پاک-بھارت میچ کے دوران یہی واقعہ پیش آیا تھا، جب سوریا کمار یادو نے ٹاس کے بعد سلمان علی آغا سے ہاتھ نہیں ملایا، اور میچ کے اختتام پر بھی بھارتی کھلاڑیوں نے پاکستانی ٹیم سے کسی قسم کی روایتی مصافحہ یا خیرسگالی کا مظاہرہ نہیں کیا تھا۔
آئی سی سی کا مؤقف: متنازع ہدایت یا بدانتظامی؟
گزشتہ میچ کے بعد یہ خبر سامنے آئی تھی کہ آئی سی سی کے میچ ریفری اینڈی پائی کرافٹ نے دونوں ٹیموں کو ہدایت کی تھی کہ وہ ہاتھ نہ ملائیں۔ اس بات پر پاکستان کرکٹ بورڈ نے سخت ردِعمل دیا اور اسے "اسپورٹس مین اسپرٹ کی کھلی خلاف ورزی” قرار دیا۔
پاکستان کی ٹیم انتظامیہ نے آئی سی سی سے باقاعدہ شکایت کی اور یہاں تک کہ ٹورنامنٹ کے بائیکاٹ کی دھمکی دے دی، جس کے بعد میچ ریفری اینڈی پائی کرافٹ کو اپنے فیصلے پر معافی مانگنی پڑی۔
مگر حیرت انگیز طور پر آج کے میچ میں بھی وہی ریفری (اینڈی پائی کرافٹ) خدمات انجام دے رہے تھے، اور ہینڈ شیک سے پھر اجتناب کیا گیا۔ اس سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ یا تو آئی سی سی نے اپنے مؤقف سے مکمل رجوع نہیں کیا، یا پھر بھارتی ٹیم اب انفرادی حیثیت میں اس عمل سے اجتناب کر رہی ہے، جو اسپورٹس مین اسپرٹ کے اصولوں سے متصادم ہے۔
اسپورٹس مین اسپرٹ: ایک اخلاقی دائرہ
کرکٹ کو ہمیشہ سے "جنٹل مین گیم” کہا گیا ہے، جہاں باہمی عزت، روایات، اور اسپورٹس مین شپ کو مرکزی اہمیت حاصل ہے۔ چاہے میدان میں سخت مقابلہ ہو، مگر میچ کے بعد مصافحہ، ایک دوسرے کی کارکردگی کی داد دینا، اور خوش دلی سے کھیل کا اختتام کرنا کرکٹ کی پہچان رہا ہے۔
مصافحہ (Handshake) صرف رسمی کارروائی نہیں بلکہ ایک علامتی اظہار ہوتا ہے کہ:
"ہم میدان میں حریف تھے، مگر انسان اور کھلاڑی ہونے کے ناطے ایک دوسرے کا احترام کرتے ہیں۔”
اس عمل سے اجتناب نہ صرف دونوں ممالک کے تعلقات پر اثر انداز ہوتا ہے بلکہ نوجوان نسل میں بھی نفرت، تقسیم اور عدم برداشت کا پیغام جاتا ہے۔
سیاست یا حفاظتی احتیاط؟— ایک متنازع بحث
بعض ناقدین کا کہنا ہے کہ شاید بھارتی ٹیم یا انتظامیہ نے یہ فیصلہ سیاسی دباؤ کے تحت کیا ہو۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان سفارتی تعلقات ماضی میں کشیدہ رہے ہیں، اور یہ کشیدگی اکثر کھیلوں پر بھی اثر انداز ہوتی ہے۔
دوسری طرف کچھ ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ عمل شاید حفاظتی پروٹوکول یا کسی اندرونی ٹیم پالیسی کے تحت کیا گیا ہو، جیسا کہ COVID-19 کے دوران دیکھا گیا تھا۔ تاہم اس دلیل کو اس لیے قبول کرنا مشکل ہے کہ:
دیگر میچوں میں کھلاڑی ہاتھ ملا رہے ہیں
ICC نے ایسے کسی SOP کی تصدیق نہیں کی
پاکستانی ٹیم سے مخصوص اس "عدم مصافحہ” نے شک کو مزید گہرا کر دیا ہے
شائقین کا ردِعمل: مایوسی اور غصہ
دنیا بھر میں پاک-بھارت کرکٹ میچ کو سب سے زیادہ دیکھے جانے والے اسپورٹس ایونٹس میں شمار کیا جاتا ہے۔ ان میچز میں لاکھوں لوگ دونوں ملکوں سے جذباتی وابستگی رکھتے ہیں۔ ایسے میں اس طرح کا واقعہ شائقین کے لیے مایوسی کا باعث بنتا ہے۔
سوشل میڈیا پر شائقین کی جانب سے شدید ردعمل دیکھنے میں آیا، جہاں لوگوں نے کہا:
"کرکٹ میدان میں دشمنی نہیں، دوستی کا پیغام ہونا چاہیے تھا”
"یہ صرف کھیل ہے، اسے سیاست کی نذر نہ کریں”
"اگر مصافحہ بھی نہ ہو تو کرکٹ کا اصل حسن کھو جاتا ہے”
پاکستان کا مؤقف: کرکٹ کو کرکٹ رہنے دیں
پاکستان کرکٹ بورڈ نے پچھلے واقعے پر اپنے شدید تحفظات کا اظہار کیا تھا، اور امکان ہے کہ آج کے واقعے پر بھی ایک بار پھر باضابطہ شکایت درج کرائی جائے گی۔
پاکستانی کپتان سلمان علی آغا نے میچ سے قبل صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا تھا:
"ہم ہر میچ کو ایک پروفیشنل مقابلے کے طور پر لیتے ہیں۔ ہم سب کا کام کرکٹ کھیلنا ہے، سیاست کرنا نہیں۔”
یہ مؤقف قابلِ تحسین ہے اور کرکٹ کے حقیقی جذبے کی نمائندگی کرتا ہے۔
ICC کی خاموشی: ادارہ جاتی بے حسی؟
سب سے حیرت انگیز پہلو یہ ہے کہ ICC جیسا عالمی ادارہ، جو کھیل کے اخلاقی و فنی پہلوؤں کا ضامن ہے، اب تک اس معاملے پر واضح مؤقف دینے سے گریزاں رہا ہے۔
اگر واقعی میچ ریفری نے ایسی ہدایت دی ہے، تو یہ نہ صرف اخلاقی بددیانتی ہے بلکہ ایک نظیر قائم کرنے کی کوشش بھی، جو کھیل کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔
کھیل میں احترام، تعلقات میں بہتری
پاک-بھارت کرکٹ محض ایک کھیل نہیں بلکہ دونوں قوموں کے درمیان نرم سفارت کاری کا ذریعہ بھی رہا ہے۔ تاریخی طور پر دیکھا جائے تو جب بھی دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کم ہوئی، کرکٹ نے اس میں برج کا کردار ادا کیا۔
اگر کھیل میں بھی تلخی اور بدسلوکی کا مظاہرہ ہوگا تو وہ نوجوان نسل میں بھی نفرت کو فروغ دے گا۔ ہینڈ شیک جیسے چھوٹے عمل، درحقیقت، بڑے جذبات کا مظہر ہوتے ہیں۔
چند تجاویز برائے ICC اور ٹیمیں:
- صاف اور شفاف SOPs جاری کیے جائیں
- ہر ٹیم کو اسپورٹس مین شپ کی تربیت دی جائے
- ریفری کے کردار کا احتساب کیا جائے
- میچ کے اختتام پر مصافحہ لازمی قرار دیا جائے
- سیاست کو کھیل سے دور رکھا جائے
ہاتھ نہ ملانا صرف ایک عمل نہیں بلکہ ایک رویہ ہے۔
یہ رویہ اگر نفرت، تکبر یا تعصب پر مبنی ہو تو کرکٹ جیسے عظیم کھیل کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔
پاک-بھارت کرکٹ دنیا بھر میں لاکھوں دلوں کو جوڑتی ہے۔ اگر اس کے میدان بھی نفرت کے علمبردار بن جائیں تو پھر دنیا کرکٹ سے کیا سیکھے گی؟
وقت آ گیا ہے کہ ہم کھیل کو صرف کھیل رہنے دیں — اور دلوں کو جوڑنے دیں، توڑنے نہیں۔

Comments 2