ایشیا کپ 2025: بھارتی میڈیا اور سیاستدانوں کا بائیکاٹ کا مطالبہ، پاکستان کی شمولیت پر اعتراضات
ایشیا کپ 2025: باضابطہ اعلان کے بعد بھارت میں نئی بحث، کرکٹ یا سیاست؟
ایشیا کپ 2025 کا باضابطہ اعلان ہوتے ہی بھارتی میڈیا، سیاستدانوں، سابق کرکٹرز اور حکومتی حلقوں میں ایک نئی بحث نے جنم لے لیا ہے۔ اگرچہ ایشین کرکٹ کونسل (ACC) کے صدر محسن نقوی نے مکمل اعتماد کے ساتھ ٹورنامنٹ کے انعقاد کی تصدیق کی ہے، لیکن بھارت کی طرف سے ٹورنامنٹ میں شرکت یا بائیکاٹ پر مسلسل شکوک و شبہات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
ایشیا کپ 2025 کا اعلان — آغاز 9 ستمبر سے
ایشین کرکٹ کونسل کے اعلامیے کے مطابق ایشیا کپ 2025 کا آغاز 9 ستمبر کو متحدہ عرب امارات میں ہوگا۔ ٹورنامنٹ کی میزبانی بھارت کے پاس ہے، لیکن مقام نیوٹرل رکھا گیا تاکہ تمام ٹیموں کی شرکت ممکن ہو۔ یہ ایونٹ ون ڈے فارمیٹ میں کھیلا جائے گا اور توقع کی جا رہی ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کم از کم دو اور زیادہ سے زیادہ تین بار ٹاکرا ہو سکتا ہے۔
بھارتی میڈیا اور سیاستدانوں کی شدید مخالفت
ایشیا کپ کے اعلان کے بعد بھارتی میڈیا نے فوری طور پر ایک منظم بائیکاٹ مہم شروع کر دی ہے۔ بھارت کے کچھ نمایاں نیوز چینلز اور اینکرز نے مطالبہ کیا کہ جب بھارت نے پاکستان سے سفارتی تعلقات معطل کر رکھے ہیں، جب نہ کوئی ثقافتی تبادلہ ہے اور نہ ہی تجارتی روابط، تو پھر کرکٹ کو کیوں استثنیٰ دیا جا رہا ہے؟
حزبِ اختلاف کا سوال: دہرا معیار کیوں؟
بھارتی پارلیمنٹ میں حزبِ اختلاف نے بھی حکومت سے سوال اٹھایا ہے کہ جب فلمیں، موسیقی، اور دیگر سرگرمیاں پاکستان کے ساتھ بند کر دی گئی ہیں، تو کرکٹ جیسے بڑے ایونٹ میں شرکت کس بنیاد پر کی جا رہی ہے؟ کیا یہ دہرا معیار نہیں؟ عوام کو ایک پالیسی کے تحت گمراہ کیوں کیا جا رہا ہے؟
سارو گنگولی کی پاکستان سے مقابلے کی حمایت
سابق بھارتی کپتان اور سابق صدر BCCI سارو گنگولی نے اس تنازع میں معتدل مؤقف اپنایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کرکٹ کو سیاست سے الگ رکھا جانا چاہیے۔ پاک-بھارت مقابلے نہ صرف شائقین کو جوڑتے ہیں بلکہ کھیل کو عالمی سطح پر پذیرائی بھی دلواتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ "اگر ہم واقعی کھیل کی قدر کرتے ہیں، تو ہمیں کھیلنے سے گھبرانا نہیں چاہیے”۔
واک اوور کا معاملہ: بھارت دو راہے پر
بھارتی میڈیا کے بعض حلقوں کا مؤقف ہے کہ اگر بھارت پاکستان کے خلاف میچ میں شرکت نہ کرے تو ٹیکنیکی طور پر بھارت کو واک اوور دے کر میچ ہارا ہوا تصور کیا جائے گا، جس کا براہِ راست فائدہ پاکستان کو ہوگا۔ اس لیے مودی سرکار کسی بھی صورت واک اوور کے حق میں نہیں ہے۔
ایک جانب سیاسی دباؤ ہے، تو دوسری طرف اسپورٹس پوزیشننگ کا مسئلہ ہے، کیونکہ اگر بھارت شرکت نہیں کرتا تو پورے ٹورنامنٹ کی قانونی اور تجارتی اہمیت پر بھی سوالات کھڑے ہو سکتے ہیں۔
بھارت کی میزبانی — مگر میدان غیر جانبدار!
ایشیا کپ 2025 کے ایک اور دلچسپ پہلو یہ ہے کہ اگرچہ ٹورنامنٹ کی میزبانی بھارت کے پاس ہے، مگر میچز متحدہ عرب امارات میں کھیلے جائیں گے۔ یہ فیصلہ اس لیے کیا گیا تاکہ پاکستان سمیت تمام ٹیمیں محفوظ اور بغیر کسی تعطل کے ٹورنامنٹ میں حصہ لے سکیں۔
یہی وجہ ہے کہ بھارت کی جانب سے پاکستان کی شرکت پر بھی اعتراضات کیے جا رہے ہیں کہ جب بھارت میزبان ہے تو پاکستان کو کسی قسم کی رعایت کیوں دی جا رہی ہے۔
ایشیائی کرکٹ کا مستقبل خطرے میں؟
یہ تنازع صرف ایک ٹورنامنٹ تک محدود نہیں رہا، بلکہ ایشیائی کرکٹ کے مستقبل پر بھی سوالات اٹھا رہا ہے۔ اگر بھارت واقعی ٹورنامنٹ کا بائیکاٹ کرتا ہے تو یہ ایشین کرکٹ کونسل کی حیثیت، یکجہتی اور اتھارٹی کے لیے ایک بڑا چیلنج ہوگا۔
محسن نقوی کا کردار کلیدی
ایشین کرکٹ کونسل کے صدر محسن نقوی نے اس تمام صورتحال میں انتہائی متوازن مؤقف اپنایا ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ ACC تمام ٹیموں کے تحفظات کا جائزہ لے رہی ہے اور ٹورنامنٹ کو ہر حال میں کامیاب بنانا ان کی اولین ترجیح ہے۔
ان کا کہنا تھا:
"ہم سیاست میں نہیں کھیلتے، ہم کھیل کے ذریعے ایشیا کو جوڑنا چاہتے ہیں۔ کرکٹ ہماری مشترکہ زبان ہے۔”
کرکٹ شائقین کی رائے
سوشل میڈیا پر کرکٹ شائقین کے درمیان بحث عروج پر ہے۔ بھارتی عوام کی اکثریت کا کہنا ہے کہ پاک-بھارت مقابلہ ایونٹ کا سب سے بڑا جزو ہوتا ہے، اور اگر یہ میچ نہیں ہوا تو ایشیا کپ اپنی چمک کھو دے گا۔
پاکستانی شائقین بھی بھارت کی جانب سے سیاسی بنیاد پر کھیل سے دوری کو افسوسناک قرار دے رہے ہیں۔ ٹوئٹر، انسٹاگرام اور یوٹیوب پر اس حوالے سے لاکھوں تبصرے سامنے آ چکے ہیں۔
کیا ہوگا ایشیا کپ کا انجام؟
یہ سوال اب ہر کرکٹ شائق کے ذہن میں گردش کر رہا ہے: کیا بھارت واقعی ایشیا کپ 2025 کا بائیکاٹ کرے گا؟
اگر ہاں، تو اس کے اثرات کیا ہوں گے؟
اگر نہیں، تو کیا پاکستان کے ساتھ کرکٹ کھیلنا سیاسی اثرات سے مبرا ہو گا؟
یہ تمام سوالات وقت کے ساتھ واضح ہوں گے، مگر اس وقت ایشیائی کرکٹ کونسل پر بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ وہ اس تنازع کو پرامن طریقے سے حل کرے تاکہ کرکٹ بحیثیت کھیل اپنی اہمیت اور مقام برقرار رکھ سکے۔
کرکٹ یا سیاست؟ فیصلہ کن لمحہ قریب ہے
ایشیا کپ 2025 کے حوالے سے تنازع نے ثابت کیا ہے کہ جب کھیل میں سیاست داخل ہو جائے تو کھیل کی روح مجروح ہوتی ہے۔ بھارت اور پاکستان کی کرکٹ دشمنی ہمیشہ سے شائقین کی دلچسپی کا مرکز رہی ہے، لیکن اگر سیاست غالب آ جائے تو شائقین، کھلاڑی اور کھیل، سب کو نقصان پہنچتا ہے۔
وقت آ گیا ہے کہ دونوں ممالک کی کرکٹ بورڈز اور حکومتیں کھلے دل کے ساتھ فیصلے کریں اور کرکٹ کو سیاست کی بھینٹ نہ چڑھنے دیں۔
Comments 1