بلوچستان میں منشیات کے خلاف فیصلہ کن جنگ – فیلڈ مارشل عاصم منیر کی ہدایت پر مہم شروع
بلوچستان میں منشیات کے خاتمے کی فیصلہ کن مہم: فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کی قیادت میں نیا باب
پاکستان کو درپیش اہم ترین چیلنجز میں ایک بڑا چیلنج منشیات کی پیداوار، ترسیل، اور اس سے وابستہ جرائم کا نیٹ ورک ہے، جو نہ صرف نوجوان نسل کے لیے زہر قاتل ہے بلکہ ملکی سیکیورٹی، معیشت، اور معاشرتی ڈھانچے کے لیے بھی ایک مستقل خطرہ بن چکا ہے۔ خاص طور پر بلوچستان، جو اپنی جغرافیائی اہمیت کے باعث بین الاقوامی اسمگلنگ کا ایک اہم گزرگاہ بن چکا ہے، وہاں منشیات کے خلاف فیصلہ کن مہم کا آغاز ایک تاریخی قدم تصور کیا جا رہا ہے۔
فیصلہ کن مہم کی قیادت: فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کا کلیدی کردار
فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کی واضح اور دوٹوک ہدایات پر بلوچستان میں منشیات کے خاتمے کے لیے ایک منظم، مربوط اور فیصلہ کن مہم شروع کر دی گئی ہے۔ اس مہم کی نگرانی براہِ راست حکومت بلوچستان کر رہی ہے، جبکہ اس کا آپریشنل پہلو انسدادِ منشیات فورس (Anti-Narcotics Force – ANF) اور دیگر مقامی ادارے انجام دے رہے ہیں۔
یہ اقدام اس بات کا ثبوت ہے کہ ریاست اب اس ناسور کے خلاف محض نمائشی کارروائیوں سے آگے بڑھ کر ایک نتیجہ خیز اور دیرپا حل کی طرف گامزن ہو چکی ہے۔
پوست کی کاشت کا خاتمہ: زمینی کارروائیوں کی تفصیلات
ترجمان کے مطابق، انسدادِ منشیات فورس اور مقامی انتظامیہ نے بلوچستان کے مختلف علاقوں میں پوست کی کاشت کے خلاف بھرپور کارروائیاں کی ہیں، جن کے نتیجے میں سینکڑوں ایکڑ پر محیط رقبے سے پوست کی فصل کو تلف کر دیا گیا ہے۔ ان کارروائیوں کے دوران نہ صرف فصلیں جلائی گئیں بلکہ منشیات کے لیبارٹریز، گوداموں، اور ترسیل کے مراکز کو بھی بند کیا گیا۔
منشیات نیٹ ورکس کے خلاف گھیرا تنگ
اس مہم کا صرف ایک مقصد نہیں بلکہ کئی اہم جہتیں ہیں۔ ایک طرف تو فصلوں کی تلفی کی جا رہی ہے، اور دوسری طرف منشیات کے اسمگلنگ نیٹ ورکس، ان کے سرغنہ، اور سہولت کاروں کو قانون کی گرفت میں لانے کے لیے مربوط انٹیلی جنس آپریشنز بھی کیے جا رہے ہیں۔
فوج، رینجرز، ایف سی، اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کی مدد سے ان نیٹ ورکس کے خلاف مربوط کارروائیاں جاری ہیں تاکہ بلوچستان کو نہ صرف منشیات کی کاشت سے پاک کیا جا سکے بلکہ اس کی ترسیل اور تجارت کو بھی مکمل طور پر روکا جا سکے۔
دہشت گردی اور منشیات: گٹھ جوڑ کا خاتمہ
حکام کا کہنا ہے کہ منشیات، جرائم، اور دہشت گردی ایک دوسرے سے جُڑے ہوئے عناصر ہیں، اور ان کا باہمی گٹھ جوڑ نہ صرف منشیات کے پھیلاؤ کو جاری رکھتا ہے بلکہ دہشت گرد تنظیموں کو مالی وسائل بھی فراہم کرتا ہے۔ بلوچستان میں کئی ایسی کارروائیاں سامنے آ چکی ہیں جن میں منشیات کے ذریعے حاصل کی گئی رقم کو دہشت گرد سرگرمیوں کی فنڈنگ میں استعمال کیا گیا۔
یہی وجہ ہے کہ اس مہم کو نہ صرف انسدادِ منشیات مہم کے طور پر دیکھا جا رہا ہے بلکہ اسے ایک قومی سیکیورٹی آپریشن کا درجہ دیا گیا ہے، جس کا مقصد ملک دشمن عناصر کے مالی وسائل کا مکمل خاتمہ ہے۔
متبادل روزگار اور معاشی بحالی کا منصوبہ
منشیات کی کاشت میں ملوث کئی مقامی افراد اس کام میں اس لیے شامل ہوتے ہیں کہ انہیں کوئی دوسرا ذریعہ معاش میسر نہیں ہوتا۔ ریاست نے اس پہلو کو بھی مدنظر رکھتے ہوئے اس مہم کو صرف سزا یا تلفی کی کارروائی تک محدود نہیں رکھا، بلکہ متبادل روزگار اور معاشی منصوبے بھی شامل کیے ہیں۔
بلوچستان حکومت کے مطابق:
مقامی کسانوں کو متبادل فصلوں کی کاشت کے لیے مالی امداد دی جائے گی۔
زرعی تربیتی مراکز قائم کیے جا رہے ہیں۔
نوجوانوں کو ہنر مند بنانے کے لیے ووکیشنل ٹریننگ پروگرامز شروع کیے جا رہے ہیں۔
چھوٹے کاروبار کے لیے بلا سود قرضے فراہم کیے جائیں گے۔
یہ اقدامات اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ ریاست کا مقصد صرف سزا نہیں، بلکہ بحالی، بحالی، اور باعزت زندگی کی طرف واپسی ہے۔
قومی ذمہ داری: ہر فرد کا کردار
حکام نے اس مہم کو صرف حکومتی یا فوجی اقدام کے طور پر نہیں بلکہ قومی ذمہ داری قرار دیا ہے۔ ان کے مطابق، منشیات کا خاتمہ صرف قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ذمہ داری نہیں بلکہ پورے معاشرے کو اس میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔
والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کی سرگرمیوں پر نظر رکھیں۔
تعلیمی اداروں کو منشیات سے متعلق آگاہی مہمات چلانی چاہییں۔
علماء، اساتذہ، اور سوشل میڈیا کے بااثر افراد کو اس جنگ میں فعال کردار ادا کرنا ہوگا۔
نتائج اور مستقبل کی سمت
اگرچہ اس مہم کے فوری اثرات سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں، لیکن حکام کا کہنا ہے کہ پائیدار نتائج کے لیے اس کو طویل مدتی حکمت عملی کے ساتھ جوڑنے کی ضرورت ہے۔ ریاستی اداروں نے عندیہ دیا ہے کہ یہ مہم عارضی نہیں بلکہ ایک مسلسل عمل ہوگا، جو تب تک جاری رہے گا جب تک بلوچستان اور پورا پاکستان منشیات سے مکمل طور پر پاک نہیں ہو جاتا۔
عالمی سطح پر تاثر
اس فیصلہ کن اقدام سے بین الاقوامی سطح پر بھی پاکستان کا ایک مثبت تاثر جا رہا ہے۔ پاکستان نے بارہا اقوامِ متحدہ اور دیگر بین الاقوامی فورمز پر اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ وہ منشیات کے خلاف جنگ میں عالمی برادری کا ایک سرگرم رکن ہے۔ بلوچستان میں حالیہ کارروائیاں اس عزم کا عملی اظہار ہیں۔
ایک نئے عزم کا آغاز
بلوچستان میں منشیات کے خلاف یہ فیصلہ کن مہم نہ صرف ایک علاقائی مسئلے کا حل ہے بلکہ یہ پاکستان کے لیے ایک نئی قومی سمت کا اشارہ بھی ہے۔ فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کی قیادت میں یہ اقدام اس حقیقت کو واضح کرتا ہے کہ جب ریاست اپنی رٹ قائم کرنے کا فیصلہ کر لے، تو کوئی بھی ناسور زیادہ دیر تک نہیں پنپ سکتا۔
یہ مہم صرف ایک جغرافیائی علاقے تک محدود نہیں رہنی چاہیے، بلکہ اس کے اثرات کو پورے ملک میں پھیلایا جانا چاہیے۔ کیونکہ منشیات صرف ایک فرد کا نہیں، بلکہ پورے معاشرے کا مسئلہ ہے — اور اس کا حل بھی اجتماعی کوششوں سے ہی ممکن ہے۔
