بھارت ستلج سیلاب : دریائے ستلج میں پانی چھوڑنے سے لاکھوں افراد متاثر
دریائے ستلج میں اونچے درجے کا سیلاب: بھارت کی اطلاع، پاکستان میں تباہ کاریاں اور حکومتی اقدامات
بھارت کی جانب سے پاکستان کو ایک بار پھر سفارتی سطح پر آگاہ کیا گیا ہے کہ دریائے ستلج میں ہریکے اور فیروز پور کے مقامات پر اونچے درجے کا سیلابی ریلا داخل ہو چکا ہے۔ بھارتی حکام کے مطابق وہ ستلج میں مزید پانی چھوڑ رہے ہیں، جس کا براہِ راست اثر پاکستان کے جنوبی اور وسطی علاقوں پر پڑے گا۔ اس اطلاع نے پاکستان کے آبی اداروں، ضلعی انتظامیہ اور صوبائی حکومتوں کو فوری طور پر الرٹ کر دیا ہے۔
سفارتی رابطہ: پانی کی پیشگی اطلاع، یا ہائبرڈ چیلنج؟
پاکستان اور بھارت کے درمیان پانی کی تقسیم کا معاہدہ 1960 میں طے پانے والا "سندھ طاس معاہدہ” ہے، جس کے تحت مشرقی دریا—ستلج، راوی، اور بیاس—کا کنٹرول بھارت کے پاس ہے، جبکہ مغربی دریا—چناب، جہلم، اور سندھ—کا کنٹرول پاکستان کے پاس ہے۔ اس معاہدے کی روشنی میں بھارت کو یہ ذمہ داری دی گئی ہے کہ وہ پاکستان کو غیر معمولی پانی کے اخراج کی صورت میں پیشگی اطلاع دے۔
تاہم ماہرین کا ماننا ہے کہ محض اطلاع دینا کافی نہیں ہوتا، بلکہ عملی سطح پر باہمی تعاون، تکنیکی ربط اور وقت پر ردعمل نہایت ضروری ہوتا ہے۔ کئی بار بھارت کی طرف سے اطلاع دیر سے ملتی ہے، یا پانی کے اچانک اخراج سے پاکستان کے نشیبی علاقے بری طرح متاثر ہوتے ہیں۔
دریائے ستلج: پاکستان میں ممکنہ اثرات اور خطرے کی گھنٹی
دریائے ستلج کا بہاؤ جب بھارت کی جانب سے غیر معمولی طور پر بڑھا دیا جاتا ہے تو اس کا پہلا اثر پاکستان کے قصور، پاکپتن، بہاولنگر، وہاڑی، لودھراں، اور بہاولپور کے اضلاع پر پڑتا ہے۔ وہاں کے درجنوں دیہات اور زرعی علاقے زیر آب آ جاتے ہیں، اور مقامی آبادی کو فوری طور پر محفوظ مقامات پر منتقل کرنا پڑتا ہے۔
وزارت آبی وسائل پاکستان نے صورتحال کی نزاکت کو مدنظر رکھتے ہوئے تمام متعلقہ اداروں کو فوری طور پر انتباہی خط جاری کر دیا ہے۔ ذرائع کے مطابق 28 مختلف محکموں کو سیلاب کے ممکنہ خطرات سے متعلق آگاہ کیا جا چکا ہے تاکہ جامع حکمتِ عملی اپنائی جا سکے۔
پنجاب میں انسانی و زرعی نقصانات
ریلیف کمشنر پنجاب، نبیل جاوید کے مطابق دریاؤں میں شدید سیلابی صورتحال کے نتیجے میں 4100 سے زائد مواضعات (دیہات اور قصبے) متاثر ہوئے ہیں۔ ابتدائی اندازوں کے مطابق 42 لاکھ 25 ہزار افراد اس سیلاب سے متاثر ہو چکے ہیں، جن میں سے 20 لاکھ 14 ہزار افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا ہے۔
یہ ایک غیر معمولی انسانی بحران ہے جو صرف موسمی حالات کا نتیجہ نہیں بلکہ خطے میں پانی کی سیاست، منصوبہ بندی کی کمی اور بنیادی انفراسٹرکچر کی کمزوریوں کی وجہ سے سنگین ہوتا جا رہا ہے۔
پنجند، تریموں، اور دیگر بیراجز پر صورت حال تشویشناک
بھارت سے آنے والے سیلابی ریلے نے پنجاب کے متعدد مقامات پر تباہی مچانے کے بعد اب سندھ میں داخل ہونا شروع کر دیا ہے۔ ہیڈ پنجند پر پانی کی آمد میں 97,706 کیوسک کا غیر معمولی اضافہ دیکھا گیا ہے، جس کے بعد پنجند بیراج پر کل آمد و اخراج 4,46,820 کیوسک ریکارڈ کی گئی ہے، جو انتہائی اونچے درجے کا سیلاب شمار کیا جاتا ہے۔
اسی طرح:
تریموں بیراج: آمد و اخراج 5,08,371 کیوسک
گڈو بیراج: آمد 3,66,151 کیوسک
سکھر بیراج: آمد 3,29,990 کیوسک
کوٹری بیراج: آمد 2,45,000 کیوسک، اخراج 2,26,497 کیوسک
یہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ سندھ کے زیریں علاقے اگلے چند دنوں میں شدید متاثر ہو سکتے ہیں، خاص طور پر وہ علاقے جو پہلے سے ہی پسماندہ اور سہولیات سے محروم ہیں۔
سندھ حکومت اور امدادی اقدامات
محکمہ اطلاعات سندھ کے مطابق تمام ضلعی انتظامیہ کو الرٹ کر دیا گیا ہے، جب کہ سکھر، لاڑکانہ، شکارپور، خیرپور، اور دادو جیسے اضلاع میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی ہے۔ فوج، رینجرز، اور مقامی انتظامیہ مشترکہ طور پر ریلیف آپریشن میں مصروف ہیں۔
عبوری ریلیف کیمپ قائم کیے جا رہے ہیں، جن میں متاثرہ افراد کو خوراک، پانی، دوائیں، اور ابتدائی طبی امداد فراہم کی جا رہی ہے۔ مگر زمینی حقائق بتاتے ہیں کہ ان کیمپوں کی تعداد اور گنجائش محدود ہے، اور متاثرین کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
زرعی معیشت پر مہلک اثرات
سیلاب نہ صرف انسانی جانوں کے لیے خطرہ بنتا ہے بلکہ پاکستان کی زرعی معیشت کے لیے بھی تباہ کن ثابت ہوتا ہے۔ سندھ اور جنوبی پنجاب میں کھڑی فصلیں — خاص طور پر چاول، کپاس، سبزیاں، اور گنا — پانی میں بہہ جانے کا خدشہ ہے۔ مویشیوں کی ہلاکت اور زرعی زمینوں میں مٹی کا کٹاؤ طویل مدتی نقصانات کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔
ماہرین کے مطابق اس بار سیلاب کے نتیجے میں اربوں روپے کا زرعی نقصان ہونے کا اندیشہ ہے، جو مہنگائی، خوراک کی قلت، اور دیہی علاقوں کی بدحالی میں مزید اضافہ کرے گا۔
ماحولیاتی تبدیلی اور بروقت اقدامات کی ضرورت
ماحولیاتی ماہرین مسلسل اس بات کی نشاندہی کر رہے ہیں کہ جنوبی ایشیا میں موسمیاتی تبدیلی (Climate Change) کے اثرات واضح ہو چکے ہیں۔ غیر متوقع بارشیں، گلیشیئرز کا تیزی سے پگھلنا، اور غیر متوازن پانی کا بہاؤ ان تمام مسائل کو جنم دے رہا ہے، جن کا براہ راست اثر پاکستان جیسے ترقی پذیر ملکوں پر پڑ رہا ہے۔
یہ صورتحال حکومت کو مجبور کرتی ہے کہ وہ پانی کے انتظام، ڈیموں کی تعمیر، نکاسی آب کے نظام اور ہنگامی ردعمل کے اداروں کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرے۔ اگر آج اقدامات نہ کیے گئے، تو مستقبل میں نقصان ناقابلِ تلافی ہو سکتا ہے۔
قومی یکجہتی اور عوامی تعاون کی اپیل
حکومت نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ متاثرہ افراد کی مدد کے لیے آگے آئیں، مقامی انتظامیہ سے تعاون کریں اور افواہوں سے بچیں۔ سوشل میڈیا پر غلط اطلاعات سے گریز اور صرف مصدقہ ذرائع سے رہنمائی حاصل کرنے پر زور دیا گیا ہے۔
مزید برآں، سول سوسائٹی، فلاحی تنظیمیں، اور نوجوانوں کو دعوت دی گئی ہے کہ وہ ریلیف سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں، تاکہ قومی سطح پر اس آزمائش کا مقابلہ یکجہتی سے کیا جا سکے۔
آزمائش کی گھڑی اور مستقبل کی تیاری
دریائے ستلج میں بھارت کی جانب سے پانی چھوڑنے کی اطلاع ایک جانب بین الاقوامی معاہدات کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے، تو دوسری طرف پاکستان کے اندر موجود انفراسٹرکچر اور ادارہ جاتی تیاریوں پر بھی سوالیہ نشان اٹھاتی ہے۔ موجودہ بحران کا سامنا کرنا ایک قومی چیلنج ہے، جس کے لیے مربوط منصوبہ بندی، بین الصوبائی تعاون، اور وفاقی قیادت کی ضرورت ہے۔
یہ صرف ایک قدرتی آفت نہیں، بلکہ ایک وارننگ ہے کہ مستقبل کے چیلنجز کے لیے آج سے تیاری ضروری ہے۔ اگر آج پاکستان نے موسمیاتی تبدیلی، پانی کے تحفظ، اور قدرتی آفات سے نمٹنے کی صلاحیتوں پر توجہ نہ دی، تو آنے والے سال مزید خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔