تین ماہ کے لیے بجلی کی قیمت میں اضافہ عوام پر نیا بوجھ ڈالنے کی تیاری
پاکستان میں بجلی کی قیمتوں کا بحران ایک بار پھر سر اٹھا رہا ہے، اور اس بار تین ماہ کے لیے بجلی کی قیمت میں اضافہ متوقع ہے۔
نیپرا (نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی) میں ہونے والی حالیہ سماعت میں ڈسکوز اور کے الیکٹرک کی جانب سے جمع کروائی گئی درخواست نے عوام میں تشویش کی لہر دوڑا دی ہے۔
پسِ منظر — نیپرا میں سماعت کا آغاز
ذرائع کے مطابق، وفاقی حکومت نے نیپرا میں تین ماہ کے لیے بجلی کی قیمت میں اضافہ کے حوالے سے 45 پیسے فی یونٹ اضافے کی درخواست جمع کرائی ہے۔
یہ اضافہ سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ کی مد میں مانگا گیا ہے، جس کا مقصد بجلی کے شعبے میں ہونے والے نقصانات اور بڑھتے ہوئے گردشی قرضے کو کم کرنا بتایا جا رہا ہے۔
سماعت چیئرمین نیپرا وسیم مختار کی سربراہی میں ہوئی، جس میں ڈسکوز نے مؤقف اختیار کیا کہ انہیں پہلی سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ کے تحت 8 ارب 41 کروڑ روپے درکار ہیں تاکہ بجلی کے نظام کو مستحکم رکھا جا سکے۔
صارفین کے اعتراضات — “مزید بوجھ ناقابلِ برداشت ہے”
سماعت کے دوران صارفین نے بجلی کی قیمت میں اضافہ کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ حکومت پہلے ہی عوام کو 7 روپے 41 پیسے فی یونٹ ریلیف دے چکی ہے، اب یہ اضافہ اس ریلیف کو غیر مؤثر بنا دے گا۔
ایک صارف نے نیپرا اجلاس میں کہا:
“ہم پہلے ہی بلوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں، اگر مزید اضافہ کیا گیا تو عام آدمی کے لیے بجلی استعمال کرنا مشکل ہو جائے گا۔”
گردشی قرضہ — مسئلے کی جڑ
ممبر نیپرا رفیق شیخ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا:
“جب تک پاور سیکٹر کی چوری، نقصانات اور کم ریکوری پر قابو نہیں پایا جاتا، گردشی قرضہ بڑھتا ہی رہے گا۔”
اس وقت پاکستان میں گردشی قرضہ 2.7 کھرب روپے سے تجاوز کر چکا ہے۔
یہ قرض وہ رقم ہے جو حکومت، بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں اور تقسیم کار کمپنیوں کے درمیان ادائیگی میں تاخیر کے باعث بڑھتی جا رہی ہے۔
پاور ڈویژن کے نمائندے کے مطابق،
“اضافی نقصانات اور کم ریکوری کی وجہ سے نقصانات بڑھے ہیں، جس کے ازالے کے لیے نیپرا سے سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ کی منظوری درکار ہے۔”
صنعتی صارفین کے خدشات
صنعتی صارفین کا کہنا تھا کہ وہ پہلے ہی گردشی قرضہ سرچارج کی مد میں 3 روپے 23 پیسے فی یونٹ ادا کر رہے ہیں۔
اگر اب بجلی کی قیمت میں اضافہ کیا گیا تو ان کے پیداواری اخراجات میں مزید اضافہ ہوگا جس سے برآمدات پر بھی اثر پڑے گا۔
انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا یہ صنعتی اور زرعی پیکیجز نومبر سے لاگو ہوں گے یا نہیں؟
نیپرا کا مؤقف
نیپرا حکام نے واضح کیا کہ اتھارٹی نے سماعت مکمل کر لی ہے اور اعداد و شمار کے تفصیلی جائزے کے بعد فیصلہ وفاقی حکومت کو بھیجا جائے گا۔
امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ تین ماہ کے لیے بجلی کی قیمت میں اضافہ کا اطلاق نومبر 2025 سے کیا جا سکتا ہے۔
عوامی ردعمل — “کیا ریلیف صرف وعدوں تک محدود رہے گا؟”
عوامی سطح پر بجلی کی قیمت میں اضافہ کی خبروں نے مایوسی پیدا کر دی ہے۔
سوشل میڈیا پر صارفین کا کہنا ہے کہ حکومت نے کچھ ہی روز پہلے بجلی سستی کرنے کا اعلان کیا تھا، مگر اب دوبارہ اضافہ تجویز کیا جا رہا ہے۔
اسلام آباد کے ایک شہری نے کہا:
“ہم روز نیا بل، نیا سرچارج، نیا ٹیکس بھرتے ہیں۔ اب سمجھ نہیں آتا بجلی لیں یا گھر کے اخراجات چلائیں۔”
معاشی ماہرین کا تجزیہ
ماہرین کے مطابق، حکومت کے پاس محدود مالی وسائل ہیں، جبکہ گردشی قرضہ کم کرنے کے لیے فوری اقدامات ناگزیر ہو چکے ہیں۔
ماہرِ معیشت ڈاکٹر کامران نذیر کے مطابق:
“اگر بجلی کی چوری اور لائن لاسز پر قابو نہ پایا گیا تو قیمتوں میں اضافہ ناگزیر ہے۔ لیکن عوامی اعتماد کے لیے حکومت کو ریلیف پالیسیوں کو برقرار رکھنا ہوگا۔”
مستقبل کا منظرنامہ
یہ ممکنہ بجلی کی قیمت میں اضافہ نہ صرف عام صارف بلکہ صنعتوں، کاروباروں اور زرعی شعبے پر بھی اثر ڈال سکتا ہے۔
اگر نیپرا نے یہ اضافہ منظور کر لیا تو نومبر سے جنوری تک عوام کو فی یونٹ 45 پیسے زیادہ ادا کرنے پڑیں گے۔
حکومت اس اضافے کو ’’عارضی‘‘ قرار دے رہی ہے، مگر عوام کے لیے یہ بوجھ کسی آزمائش سے کم نہیں۔
پنجاب حکومت کا بڑا فیصلہ: بجلی ڈیوٹی ٹیکس کا اطلاق 500 KVA سے زائد صارفین پر
تین ماہ کے لیے بجلی کی قیمت میں اضافہ کا فیصلہ اگرچہ تکنیکی وجوہات کی بنا پر کیا جا رہا ہے، لیکن عوامی سطح پر اس کے اثرات انتہائی سنگین ہوں گے۔
پاور سیکٹر کی ناقص کارکردگی، چوری اور کم ریکوری جیسے مسائل حل کیے بغیر ہر سہ ماہی میں قیمتوں میں اضافہ عوام کے لیے مزید مشکلات کا باعث بنتا رہے گا۔









