کینیڈا میں سائیکل سوار کی ہلاکت کے بعد عوام کا پرامن مگر انوکھا احتجاج
کینیڈا اور کراچی میں ٹریفک حادثات کا فرق
دنیا کے بڑے شہروں میں ٹریفک حادثات ایک عام مگر سنگین مسئلہ ہیں۔ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں آئے روز بھاری گاڑیاں، خاص طور پر ڈمپر اور ٹرک، شہریوں کو کچل دیتی ہیں۔ ان حادثات میں کئی بار معصوم بچے، خواتین اور سائیکل سوار اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ ہر بار ایسا واقعہ ہوتا ہے تو عوام کے اندر غم و غصہ پھیل جاتا ہے۔ نتیجتاً کبھی سڑکوں پر ہنگامہ آرائی ہوتی ہے، کبھی ڈمپر کو آگ لگا دی جاتی ہے۔ لیکن یہ ردِعمل وقتی اور جذباتی ہوتا ہے، اس سے کوئی دیرپا حل سامنے نہیں آتا۔
اس کے برعکس کینیڈا جیسے ملک میں جب کسی سائیکل سوار کی ہلاکت (Cyclist killed) ہوتی ہے تو عوام کا رویہ اور حکمتِ عملی بالکل مختلف نظر آتی ہے۔ وہاں کے لوگ احتجاج کو تشدد یا ہنگامہ آرائی کا ذریعہ نہیں بناتے بلکہ ایسا پرامن احتجاج کرتے ہیں جو حکام کو سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے۔
مونٹریال کا افسوسناک حادثہ
کینیڈا کے شہر مونٹریال میں حالیہ دنوں ایک 31 سالہ خاتون سائیکل سوار کی ہلاکت نے پورے شہر کو ہلا کر رکھ دیا۔ خاتون ایک بڑی شاہراہ پر سائیکل چلا رہی تھیں کہ اچانک ایک ٹرک کی ٹکر لگنے سے ان کی موت واقع ہوگئی۔ یہ حادثہ بظاہر ایک فرد کی زندگی کا خاتمہ تھا لیکن شہریوں نے اسے پورے معاشرے کی حفاظت سے جوڑ دیا۔
یہ پہلا واقعہ نہیں تھا۔ کینیڈا سمیت دنیا کے کئی ترقی یافتہ ممالک میں بھی ٹریفک حادثات کے نتیجے میں سائیکل سوار کی ہلاکت کی وجہ بنتے ہیں۔ مگر اہم فرق یہ ہے کہ وہاں عوام صرف افسوس کرنے تک محدود نہیں رہتے بلکہ مؤثر انداز میں آواز بلند کرتے ہیں۔
انوکھا احتجاج: "ڈائی اِن”
حادثے کے اگلے ہی روز مونٹریال کی مرکزی شاہراہ پر سیکڑوں افراد جمع ہوئے۔ سب نے اپنی سائیکلوں کے ساتھ سڑک پر لیٹ کر احتجاج کیا۔ یہ احتجاج "ڈائی اِن” کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس میں لوگ زمین پر لیٹ کر اس بات کی علامتی نمائندگی کرتے ہیں کہ ٹریفک حادثات سے کتنی زندگیاں ضائع ہوچکی ہیں۔
یہ منظر دل دہلا دینے والا بھی تھا اور پراثر بھی۔ مظاہرین نے اپنے جسم کے گرد چاک سے لکیریں کھینچ کر پولیس کی کرائم سین انویسٹیگیشن جیسا منظر بنایا تاکہ یہ پیغام دیا جا سکے کہ حادثے محض اعداد و شمار نہیں بلکہ انسانی جانوں کا نقصان ہیں۔
مظاہرین کے مطالبات
مظاہرین کا بنیادی مطالبہ یہ تھا کہ مونٹریال کی مرکزی شاہراہ "پارک ایونیو” پر رفتار کی حد کم کی جائے۔ اس کے علاوہ وہاں محفوظ سائیکل لین بنائی جائے تاکہ سائیکل سوار ٹرک اور دیگر بڑی گاڑیوں سے محفوظ رہ سکیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پارک ایونیو رہائشی اور تجارتی علاقے کے بیچوں بیچ ہے، اس لیے گاڑیوں کی تیز رفتاری اسے موت کا جال بنا دیتی ہے۔ اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو مزید سائیکل سوار اپنی جان گنوا سکتے ہیں۔
حکام کی فوری ردِعمل
عوام کے مؤثر احتجاج نے حکام کو حرکت میں آنے پر مجبور کر دیا۔ مونٹریال کی میئر، والیری پلانت، نے ایک پریس کانفرنس میں حادثے پر افسوس کا اظہار کیا اورسائیکل سوار کی ہلاکت کے لیے ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی۔
میئر نے اعلان کیا کہ شہر میں ایک نئی سائیکل پاتھ تعمیر کی جائے گی اور اسے مشہور ایکٹوسٹ "رابرٹ بائیسکل باب سلورمین” کے نام سے منسوب کیا جائے گا۔ یہ اعلان اس بات کا ثبوت ہے کہ عوام کا پرامن مگر منظم احتجاج حکمرانوں کو سننے اور عمل کرنے پر مجبور کر دیتا ہے۔
کراچی کے تناظر میں سبق
یہاں سوال یہ ہے کہ اگر کراچی میں سائیکل سوار کی ہلاکت ہوتی ہے تو ہمارا ردِعمل کیا ہوتا ہے؟ عام طور پر لوگ سڑکیں بلاک کر دیتے ہیں، گاڑیاں توڑ پھوڑ دی جاتی ہیں، اور املاک کو نقصان پہنچایا جاتا ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اصل مسئلہ پسِ پشت چلا جاتا ہے اور حکام اس مسئلے کو صرف "ہنگامہ آرائی” سمجھ کر نظرانداز کر دیتے ہیں۔
اگر کراچی کے عوام بھی کینیڈا کے عوام کی طرح پرامن اور منظم انداز میں احتجاج کریں، تو ممکن ہے کہ ٹریفک قوانین بہتر ہوں، رفتار کی حد پر عمل کرایا جائے اور سائیکل سواروں کے لیے محفوظ راستے بنائے جائیں۔
سائیکل سوار کی ہلاکت اور عالمی رجحان
دنیا کے مختلف ممالک میں جب کسی سائیکل سوار کی ہلاکت ہوتی ہے تو عوام اسی طرح کے "ڈائی اِن” احتجاج کرتے ہیں۔ ان احتجاجات نے کئی شہروں میں ٹریفک قوانین میں تبدیلیاں لانے اور سائیکل سواروں کے تحفظ کو یقینی بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
کینیڈا کے مونٹریال میں ہوا حالیہ احتجاج اسی عالمی سلسلے کا حصہ ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ پرامن احتجاج نہ صرف مؤثر ہے بلکہ دیرپا تبدیلی بھی لا سکتا ہے۔
سائیکل سوار کی ہلاکت ایک المیہ ہے، چاہے وہ کینیڈا میں ہو یا کراچی میں۔ فرق صرف عوام کے ردِعمل کا ہے۔ کینیڈا کے لوگ احتجاج کو مثبت انداز میں استعمال کرتے ہیں جبکہ کراچی میں یہ احتجاج اکثر تشدد میں بدل جاتا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم بھی اپنی حکمتِ عملی کو بدلیں۔ اگر ہم پرامن، مؤثر اور منظم احتجاج کریں تو ہمارے شہروں میں بھی محفوظ سائیکل لین بنائی جا سکتی ہیں، رفتار کی حد پر عمل کرایا جا سکتا ہے، اور سب سے بڑھ کر انسانی جانوں کو محفوظ بنایا جا سکتا ہے۔
بونیر میں گاڑی کھائی میں جاگری، خواتین اور بچے سمیت 5 جاں بحق، متعدد زخمی
