پاکستان میں چینی کی قیمت میں کمی کے باوجود 190 روپے فی کلو تک برقرار
پاکستان میں چینی کی قیمتوں میں کمی کے باوجود مہنگائی برقرار – ادارہ شماریات کی تفصیلی رپورٹ
شہری اب بھی سرکاری نرخ سے زیادہ قیمت پر چینی خریدنے پر مجبور
پاکستان میں چینی کی قیمتوں میں حالیہ دنوں میں معمولی کمی ضرور دیکھی گئی ہے، لیکن وفاقی ادارہ شماریات کی جانب سے جاری کردہ تازہ ترین رپورٹ کے مطابق اب بھی ملک بھر میں چینی کی اوسط قیمت سرکاری نرخ سے زیادہ ہے۔ بعض شہروں میں چینی کی قیمت 190 روپے فی کلو تک برقرار ہے، جو کہ عام صارف کی پہنچ سے باہر محسوس ہوتی ہے۔
چینی کی قیمتوں کی موجودہ صورتحال – اہم نکات
ملک بھر میں چینی کی اوسط قیمت: 178 روپے 67 پیسے فی کلو
گزشتہ ہفتے کے مقابلے میں کمی: 66 پیسے فی کلو
ایک سال قبل قیمت: 146 روپے 75 پیسے فی کلو
سب سے زیادہ قیمت والے شہر: کراچی، پشاور، بہاولپور
سرکاری ریٹ: اسلام آباد 172، پنجاب اور کراچی 173 روپے فی کلو
ایکس مل قیمت (حکومتی اعلان): 165 روپے فی کلو (15 جولائی سے)
چینی کی قیمتوں میں کمی لیکن مسئلہ برقرار
ادارہ شماریات کی رپورٹ کے مطابق چینی کی قیمتوں میں معمولی کمی ضرور ہوئی ہے، لیکن قیمتیں تاحال سرکاری نرخ پر نہیں آ سکیں۔ اسلام آباد میں چینی کی قیمت اگرچہ 172 روپے فی کلو پر آ چکی ہے، جو کہ سرکاری نرخ کے مطابق ہے، لیکن دیگر کئی شہروں میں قیمتیں اب بھی 180 سے 190 روپے فی کلو تک دیکھی جا رہی ہیں۔

سب سے مہنگی چینی کہاں مل رہی ہے؟
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کراچی، پشاور اور بہاولپور کے شہری سب سے مہنگی چینی خریدنے پر مجبور ہیں، جہاں قیمت 190 روپے فی کلو تک برقرار ہے۔ یہ صورتحال نہ صرف صارفین کے لیے تشویشناک ہے بلکہ یہ حکومت کی پرائس کنٹرول پالیسی پر بھی سوالیہ نشان بن چکی ہے۔
سرکاری نرخ اور حقیقت میں فرق کیوں؟
وفاقی حکومت کی جانب سے 15 جولائی سے چینی کی ایکس مل قیمت 165 روپے فی کلو مقرر کی گئی تھی، جب کہ ریٹیل قیمت اسلام آباد میں 172 روپے، پنجاب اور کراچی میں 173 روپے فی کلو رکھی گئی تھی۔ لیکن بازار میں ان قیمتوں پر چینی دستیاب نہیں۔
وجوہات:
ذخیرہ اندوزی: بعض تاجروں کی جانب سے چینی کو ذخیرہ کر کے مصنوعی قلت پیدا کی گئی ہے۔
ٹرانسپورٹ اور لاجسٹک لاگت: مخصوص شہروں میں ترسیل کے اخراجات زیادہ ہونے کی وجہ سے قیمت بڑھ جاتی ہے۔
طلب و رسد کا فرق: چینی کی طلب میں اضافہ اور مقامی پیداوار میں کمی کی وجہ سے قیمتوں پر دباؤ رہتا ہے۔
چینی کی درآمد اور اس سے جڑی مشکلات
حکومت نے قیمتوں پر قابو پانے کے لیے چینی درآمد کرنے کا فیصلہ کیا، لیکن حالیہ رپورٹس کے مطابق پہلا ٹینڈر مطلوبہ معیار پر پورا نہ اترنے کی وجہ سے منسوخ کر دیا گیا ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ درآمد کے عمل میں بھی کئی رکاوٹیں حائل ہیں۔
درآمد کی ناکامی کے اثرات:
قیمتوں میں استحکام نہ آنا
مقامی مارکیٹ میں غیر یقینی صورتحال
صارفین کی پریشانی میں اضافہ
چینی کی قیمتوں کے اثرات – مٹھائیاں بھی مہنگی
چینی کی قیمت میں اضافے کا براہ راست اثر فوڈ انڈسٹری پر بھی پڑ رہا ہے، خاص طور پر:
مٹھائی اور بیکری آئٹمز مہنگے ہو گئے ہیں
مشروبات اور دودھ سے بنی اشیاء کی قیمتیں بھی متاثر ہو رہی ہیں
شادی بیاہ اور دیگر تقریبات میں اخراجات بڑھ رہے ہیں
سالانہ بنیاد پر چینی کی قیمتوں میں اضافہ
اگر گزشتہ سال کی قیمت سے موازنہ کیا جائے تو:
اگست 2024 میں چینی کی اوسط قیمت: 146.75 روپے فی کلو
اگست 2025 میں چینی کی اوسط قیمت: 178.67 روپے فی کلو
سالانہ اضافہ: تقریباً 31 روپے 92 پیسے فی کلو
یہ ایک 21.7% اضافہ بنتا ہے، جو کہ عام شہری کی قوتِ خرید کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔
راولپنڈی سمیت پنجاب کے کئی شہروں میں قیمت میں استحکام
ادارہ شماریات کی رپورٹ میں خوش آئند پہلو یہ ہے کہ پنجاب کے کچھ شہروں میں چینی کی قیمت سرکاری نرخ کے قریب پہنچ گئی ہے۔ راولپنڈی میں چینی 173 روپے فی کلو پر دستیاب ہے، جو کہ حکومت کی کوششوں کا مثبت نتیجہ ہے۔
حکومت کے لیے چیلنج – قیمتیں کیسے کنٹرول ہوں گی؟
وفاقی حکومت نے قیمتوں پر کنٹرول کے لیے متعدد اقدامات کیے ہیں، جن میں شامل ہیں:
ایکس مل قیمت کی حد بندی
ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کارروائیاں
چینی کی درآمد کا فیصلہ
مارکیٹ مانیٹرنگ اور رپورٹنگ نظام کو فعال بنانا
لیکن ان اقدامات کی کامیابی تب ہی ممکن ہے:
جب عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے
ذخیرہ اندوزوں کو قانونی سزائیں دی جائیں
ریٹیل مارکیٹ میں نگرانی بڑھائی جائے
صارفین کے لیے تجاویز
چینی کی اصل قیمت چیک کریں: مقامی مارکیٹ میں قیمتوں کے بارے میں جاننے کے لیے ادارہ شماریات کی رپورٹ کا مطالعہ کریں۔
زیادہ قیمت پر چینی فروخت کرنے والوں کی نشاندہی کریں: شکایت کی صورت میں متعلقہ حکام سے رابطہ کریں۔
خریداری کو منصوبہ بندی سے کریں: اچانک خریداری سے پرہیز کریں تاکہ مصنوعی قلت کا فائدہ ذخیرہ اندوز نہ اٹھا سکیں۔
چینی ایک بنیادی ضرورت کی چیز ہے، اور اس کی قیمت میں اضافے کا براہِ راست اثر ہر گھرانے پر پڑتا ہے۔ ادارہ شماریات کی حالیہ رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت کی جانب سے قیمتوں میں کمی کی کوششوں کے باوجود چینی اب بھی اکثر شہروں میں سرکاری نرخ سے مہنگی فروخت ہو رہی ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اپنی قیمت کنٹرول پالیسی پر سختی سے عملدرآمد کروائے، درآمدی نظام کو شفاف بنایا جائے، اور مارکیٹ میں نگرانی کا دائرہ وسیع کیا جائے تاکہ عوام کو ریلیف فراہم کیا جا سکے۔

