چین اور قازقستان قابل اعتماد شراکت دار: شی جن پھنگ کا اہم بیان
چین اور قازقستان: قابل اعتماد شراکت داری کی نئی بلندیوں کی جانب
بین الاقوامی تعلقات کی دنیا میں چند ہی ایسے دو طرفہ روابط ہوتے ہیں جو وقت، جغرافیہ، تہذیب اور باہمی مفادات کی کسوٹی پر پورا اُترتے ہیں۔ چین اور قازقستان کا تعلق ایک ایسا ہی درخشندہ نمونہ بن چکا ہے جو اعتماد، احترام اور تعاون کی بنیاد پر قائم ہے۔ اس کا واضح ثبوت حال ہی میں چینی شہر تیانجن میں ہونے والی اس اہم ملاقات سے ملتا ہے، جہاں چینی صدر شی جن پھنگ اور قازق صدر قاسم جومارت توکائیف نے دو طرفہ تعلقات کے نئے دور کا آغاز کیا۔
یہ ملاقات محض رسمی گفتگو یا روایتی سفارتی تبادلہ خیال نہ تھی، بلکہ اس میں ان تمام پہلوؤں پر بات کی گئی جنہوں نے گزشتہ چند دہائیوں میں دونوں ممالک کو ایک دوسرے کے لیے ناقابلِ تنسیخ اسٹریٹیجک پارٹنر بنا دیا ہے۔
ایک قابلِ اعتبار اور مضبوط اسٹریٹیجک شراکت داری
صدر شی جن پھنگ نے واضح انداز میں کہا کہ "چین اور قازقستان ایک دوسرے کے قابل اعتماد، معتبر اور ہمہ گیر شراکت دار ہیں”۔ انہوں نے مزید کہا کہ عالمی حالات جیسے بھی ہوں، دونوں ہمسایہ ممالک کو ایک دوسرے کے ساتھ تعاون اور اعتماد کی پالیسی پر کاربند رہنا چاہیے۔ صدر شی کا یہ بیان نہ صرف موجودہ بین الاقوامی صورت حال کی عکاسی کرتا ہے بلکہ یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ چین اپنی ہمسایہ ریاستوں کے ساتھ پرامن بقائے باہمی، ترقی اور تعاون پر مبنی تعلقات کو کتنی اہمیت دیتا ہے۔
علاقائی اور عالمی سطح پر ہم آہنگی
یہ ملاقات ایسے وقت پر ہوئی ہے جب قازق صدر توکائیف شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) کے سربراہ اجلاس اور جاپانی جارحیت کے خلاف چین کی مزاحمتی جنگ کی 80 ویں سالگرہ کی تقریبات میں شرکت کے لیے چین آئے ہوئے تھے۔ ان مواقع کی تاریخی اور علامتی اہمیت اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ چین اور قازقستان نہ صرف دو طرفہ سطح پر ایک دوسرے کے قریب ہیں بلکہ وہ کثیرالجہتی پلیٹ فارمز پر بھی باہمی تعاون کو فروغ دینے میں پیش پیش ہیں۔
صدر شی نے اس موقع پر اس بات پر زور دیا کہ دونوں ممالک کو اپنی ترقیاتی حکمت عملیوں میں ہم آہنگی پیدا کرنی چاہیے تاکہ باہمی مفادات کے نئے مواقع تلاش کیے جا سکیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ایس سی او کو مزید فعال اور مؤثر بنانے کے لیے مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ایک منصفانہ، متوازن اور کثیرالجہتی عالمی نظام کو فروغ دیا جا سکے۔
معاشی تعلقات: ترقی کی نئی راہیں
قازق صدر توکائیف نے اس بات پر خوشی کا اظہار کیا کہ چین اور قازقستان کے تعلقات اب تاریخ کے بہترین دور میں داخل ہو چکے ہیں۔ گزشتہ برس دو طرفہ تجارتی حجم اپنی بلند ترین سطح پر پہنچا، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ دونوں ممالک اقتصادی میدان میں نہایت کامیاب اور متحرک انداز میں آگے بڑھ رہے ہیں۔
توکائیف نے یہ بھی کہا کہ قازقستان، چین کے ساتھ مشترکہ منصوبہ جات، سرمایہ کاری اور تکنیکی تعاون کو مزید وسعت دینا چاہتا ہے تاکہ دونوں ممالک کے تعلقات کو نئی بلندیوں تک لے جایا جا سکے۔ یہ خواہش نہ صرف تجارتی اور صنعتی ترقی کے لیے اہم ہے بلکہ علاقائی سلامتی، توانائی تحفظ اور پائیدار ترقی کے اہداف کو حاصل کرنے میں بھی مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔
20 سے زائد تعاون کے معاہدے: ہمہ جہتی شراکت داری کی علامت
اس اعلیٰ سطحی ملاقات کی ایک اور نمایاں جھلک یہ تھی کہ دونوں ممالک نے توانائی، ٹیکنالوجی، تعلیم، رہائش، کھیلوں اور ماحولیات جیسے مختلف شعبہ جات میں 20 سے زائد تعاون کے معاہدوں پر دستخط کیے۔ ان معاہدوں کی نوعیت اس بات کا واضح پیغام دیتی ہے کہ چین اور قازقستان کے تعلقات صرف سفارتی یا تجارتی حدود تک محدود نہیں، بلکہ یہ ایک جامع اور ہمہ گیر ترقیاتی ایجنڈے کی عکاسی کرتے ہیں۔
یہ معاہدے نہ صرف اقتصادی ترقی کے ضامن ہوں گے بلکہ دونوں اقوام کے عوام کے معیارِ زندگی کو بہتر بنانے میں بھی اہم کردار ادا کریں گے۔
قیادت کا کردار: بصیرت اور عزم
چینی صدر شی جن پھنگ اور قازق صدر توکائیف دونوں ہی ایسے رہنما ہیں جو دور اندیشی، تدبر اور عملی اقدامات کے حامل سمجھے جاتے ہیں۔ ان دونوں رہنماؤں کی ذاتی دلچسپی اور فعال سفارت کاری نے دونوں ممالک کے تعلقات کو ایک نئی جہت دی ہے۔ اس ملاقات میں اعلیٰ چینی حکام جیسے کہ کائی چھی، وانگ یی اور چھن من ار کی موجودگی بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ چین اس شراکت داری کو ریاستی سطح پر کتنی اہمیت دیتا ہے۔
مستقبل کی راہیں: مشترکہ ترقی و خوشحالی
چین کا "بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو” (BRI) قازقستان کے ساتھ تعلقات میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ قازقستان کی جغرافیائی حیثیت اسے وسطی ایشیا کا دروازہ بناتی ہے اور یہ BRI کے زمینی راستے کا ایک اہم جزو ہے۔ چین اور قازقستان کے درمیان ریلوے، شاہراہوں اور توانائی کے منصوبوں کی تعمیر نے نہ صرف دونوں ممالک کی معاشی ترقی کو فروغ دیا ہے بلکہ پورے خطے میں ربط و رسل، تجارتی انضمام اور علاقائی استحکام کو بھی تقویت دی ہے۔
چین اور قازقستان کے تعلقات صرف سفارتی بیانات یا مشترکہ معاہدوں تک محدود نہیں، بلکہ یہ ایک ایسی اسٹریٹیجک شراکت داری کی مثال بن چکے ہیں جس میں اعتماد، احترام، ہم آہنگی اور ترقی کا واضح عکس دکھائی دیتا ہے۔ موجودہ عالمی حالات میں جب دنیا مختلف چیلنجز اور غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہے، چین اور قازقستان کی قربت اور اشتراک نہ صرف دونوں ممالک کے لیے فائدہ مند ہے بلکہ علاقائی و عالمی استحکام، ترقی اور تعاون کے لیے بھی ایک مثالی ماڈل پیش کرتی ہے۔
اگر یہی رفتار، بصیرت اور عزم برقرار رہا تو آنے والے برسوں میں یہ شراکت داری نہ صرف مضبوط تر ہوگی بلکہ دنیا کے سامنے امن، ترقی اور باہمی مفاد پر مبنی بین الاقوامی تعلقات کی بہترین مثال بنے گی۔

Comments 1