ایشیا کے طاقتور رہنما ایک ساتھ — پاکستان کی خطے میں بڑھتی ہوئی اہمیت نمایاں، دوسری جنگِ عظیم کی 80ویں سالگرہ چین کی فوجی پریڈ
بیجنگ: — چین کے دارالحکومت بیجنگ میں دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کی 80ویں سالگرہ کے موقع پر ایک شاندار فوجی پریڈ کا انعقاد کیا گیا، جس نے پوری دنیا کی توجہ اپنی جانب مبذول کر لی۔ اس تقریب میں چین کے صدر شی جن پنگ، روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن اور وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف ایک ساتھ مرکزی اسٹیج پر نمودار ہوئے۔ تینوں رہنماؤں کی یہ یکجائی نہ صرف ایشیا بلکہ عالمی سیاست میں بھی ایک نئی علامت کے طور پر دیکھی جا رہی ہے۔
پریڈ کا منظر
یہ غیر معمولی پریڈ دوسری عالمی جنگ میں جاپان کی شکست اور چین کی آزادی کے 80 برس مکمل ہونے پر منعقد کی گئی، جسے چین نے اپنی فوجی طاقت اور سفارتی اہمیت اجاگر کرنے کے لیے استعمال کیا۔ اگرچہ مغربی رہنماؤں نے اس تقریب کو بڑی حد تک نظر انداز کیا، لیکن پیوٹن اور کم جونگ اُن کی شرکت نے تقریب کو عالمی سطح پر توجہ کا مرکز بنا دیا۔
فوجی طاقت کا شاندار مظاہرہ
تیانمن اسکوائر میں منعقدہ اس عظیم الشان تقریب میں 50 ہزار سے زائد افراد شریک تھے، جہاں صدر شی جن پنگ نے اپنے تاریخی خطاب میں کہا:
"آج انسانیت امن یا جنگ، مکالمہ یا تصادم، باہمی فائدے یا صفر جمعی کھیل کے انتخاب کے سامنے ہے۔”
اس کے بعد صدر شی ایک کھلی گاڑی میں بیٹھ کر فوجی دستوں اور جدید ہتھیاروں کا معائنہ کرتے رہے۔ اس موقع پر ہائپر سونک میزائل، زیرآب ڈرونز اور جدید روبوٹک ہتھیار بھی پیش کیے گئے۔ ہیلی کاپٹروں نے بڑے بینرز لہرائے، لڑاکا طیاروں نے فارمیشن بنا کر فلائی پاسٹ کیا، اور آخر میں 80 ہزار سفید "امن کے پرندے” آسمان میں چھوڑے گئے۔
تین بڑے رہنما ایک ساتھ
چین کی فوجی پریڈ کی سب سے نمایاں جھلک اس وقت دیکھی گئی جب صدر شی جن پنگ، ولادیمیر پیوٹن اور وزیراعظم شہباز شریف ایک ساتھ پریڈ وینیو پر داخل ہوئے۔ یہ منظر عالمی میڈیا کی سرخیوں میں چھا گیا۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس سے دنیا کو یہ واضح پیغام ملا ہے کہ ایشیا کی بڑی طاقتیں نئے سفارتی اور سیاسی اتحاد کی طرف بڑھ رہی ہیں۔
پاکستانی وزیراعظم کی اس سطح پر موجودگی خاص طور پر اس لیے اہم ہے کہ یہ خطے میں پاکستان کی بڑھتی ہوئی اسٹریٹجک اہمیت اور چین و روس کے ساتھ قریبی تعلقات کی علامت ہے۔
شی جن پنگ، پیوٹن اور کم جونگ اُن چین کی فوجی پریڈ کے دوران ایک ساتھ بیٹھے رہے اور باہمی گفتگو کرتے رہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق یہ منظر دنیا کے لیے ایک اہم پیغام تھا کہ ایشیائی طاقتیں نئے عالمی اتحاد کی طرف بڑھ رہی ہیں۔
بھارت کی غیر موجودگی
ایک اور اہم پہلو یہ تھا کہ اس تاریخی تقریب میں بھارتی وزیراعظم کو مدعو نہیں کیا گیا۔ ماہرین اسے خطے کی بدلتی ہوئی سیاسی حرکیات اور بھارت کے بعض مغربی ممالک کے ساتھ بڑھتے تعلقات کے تناظر میں دیکھ رہے ہیں۔ چین اور روس کے قریب ہوتے پاکستان کے برعکس بھارت کی غیر موجودگی اس بات کی علامت ہے کہ خطے میں نئے سفارتی توازن ابھر رہے ہیں۔
پاکستان کی خطے میں بڑھتی ہوئی اہمیت
وزیراعظم شہباز شریف کی موجودگی نہ صرف چین اور روس کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کو ظاہر کرتی ہے بلکہ یہ اس بات کی بھی عکاس ہے کہ عالمی طاقتیں پاکستان کو خطے میں امن، ترقی اور تعاون کے لیے ایک کلیدی ملک کے طور پر دیکھ رہی ہیں۔ ماہرین کے مطابق پاکستان کے لیے یہ موقع اپنی سفارت کاری کو مزید فعال بنانے اور خطے میں توازن قائم رکھنے کے لیے اہم ثابت ہو سکتا ہے۔

شی جن پنگ کا انتباہ
چین کی فوجی پریڈ سے خطاب میں صدر شی جن پنگ نے دوسری عالمی جنگ کو چین کی "عظیم نشاۃ ثانیہ” کا آغاز قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ چین اب دنیا کو "بالادستی اور طاقت کی سیاست” کے بجائے باہمی تعاون پر مبنی ایک نئے عالمی نظام کی طرف لے جانا چاہتا ہے۔
یہ بیان واضح طور پر امریکا اور مغربی ممالک کی پالیسیوں پر تنقید تھا۔
تجزیہ کاروں کے مطابق صدر شی کا یہ اعلان اس بات کی علامت ہے کہ چین اب عالمی سیاست میں "ڈرائیونگ سیٹ” پر بیٹھنے کا دعویٰ کر رہا ہے۔
انہوں نے زور دیا کہ چین تاریخ کے درست رخ پر ہے اور وہ دنیا کو "بالادستی اور طاقت کی سیاست” سے ہٹا کر تعاون اور باہمی ترقی کی طرف لے جانا چاہتا ہے۔
بیجنگ شہباز شریف اور ولادیمیر پیوٹن کی ملاقات، دوطرفہ تعلقات کو فروغ دینے کا عزم
روس اور شمالی کوریا کے ساتھ تعلقات
پیوٹن پہلے ہی چین کے ساتھ توانائی کے بڑے معاہدے کر چکے ہیں۔ اس موقع پر کم جونگ اُن کی شرکت کو ان کے متنازع ایٹمی پروگرام کے لیے چین اور روس سے غیر اعلانیہ حمایت کے حصول کی کوشش قرار دیا جا رہا ہے۔
یہ 66 برس بعد پہلا موقع ہے کہ کسی شمالی کوریائی رہنما نے چین کی فوجی پریڈ میں شرکت کی۔
کم جونگ اُن اپنی بیٹی جو اے کے ساتھ بیجنگ پہنچے، جنہیں جنوبی کوریا کی انٹیلی جنس ان کا ممکنہ جانشین قرار دیتی ہے، تاہم وہ پریڈ میں موجود نہ تھیں۔
عالمی ردعمل
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی سوشل میڈیا ویب سائٹ ’ٹروتھ سوشل‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے پیوٹن اور کم کو "گرمجوشی سے سلام” بھیجنے کا طنزیہ پیغام دیا اور دوسری عالمی جنگ میں امریکا کے کردار کو اجاگر کیا۔
جاپان کی حکومت نے تبصرہ کرنے سے گریز کیا تاہم ترجمان نے کہا کہ ایشیا کی بڑی معیشتیں "تعمیراتی تعلقات” قائم کر رہی ہیں۔
دوسری جانب تائیوان نے اپنے شہریوں کوچین کی فوجی پریڈ میں شرکت سے روک دیا۔ صدر لائی چنگ-تے نے کہا: "تائیوان امن کو بندوق کی نالی سے نہیں مناتا۔”
یہ ردعمل اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ مغرب چین، روس اور ان کے اتحادیوں کی اس قربت کو شک کی نگاہ سے دیکھ رہا ہے۔
چین کے اندرونی چیلنجز
دلچسپ امر یہ ہے کہ گزشتہ دو برسوں میں پیپلز لبریشن آرمی کے کئی اعلیٰ افسران کرپشن کے الزامات پر برطرف کیے گئے ہیں۔ لیکن چین کی فوجی پریڈ کے ذریعے صدر شی نے دنیا کی توجہ ان مسائل سے ہٹا کر اپنی فوجی جدت اور مضبوط قیادت پر مرکوز کرنے کی کوشش کی۔
بروکنگز انسٹی ٹیوٹ کے تجزیہ کار جان زن کے مطابق: "چین کی فوجی پریڈ شی کو موقع دیتی ہے کہ وہ دنیا کو اپنی فوجی ترقی دکھائیں اور اندرونی مسائل کو پس منظر میں دھکیل دیں۔”
چین کی فوجی پریڈ (china military parade 2025)محض ایک فوجی مظاہرہ نہیں تھی بلکہ ایک طاقتور سیاسی پیغام بھی تھا۔ ایشیا کے تین رہنماؤں کا ایک ساتھ کھڑا ہونا دنیا کو یہ باور کرا گیا کہ عالمی سیاست کا توازن تیزی سے مشرق کی طرف جھک رہا ہے۔ پاکستان کی موجودگی اس توازن میں ایک اہم اضافہ ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آنے والے برسوں میں خطے کی سیاست میں پاکستان کا کردار مزید اہم ہونے والا ہے۔
CHINA FLEXES MILITARY MIGHT WITH PUTIN, XI, KIM ALLIANCE IN BEIJING PARADE
Global power shift intensifies as sanctioned leaders unite, signaling defiance against Western dominance.#ChinaParade #AxisOfUpheaval #GlobalOrder #MilitaryMight pic.twitter.com/WclP8klqml
— Morality X (@Morality_X) September 3, 2025